جموں

سانحہ جموں ۔۔ انسانیت کا قتل عام

ریاست جموں و کشمیر تاریخ یوں تو بے شمار خونچکاں واقعات سے بھری ہوئی ہے جن میں سے ایک 6نومبر1947ء کے سیاہ دن جموں میں پیش آنے والا انسانیت کے قتل عام کا ایک ایسا دلخراش واقعہ ہے کہ جسے بیان کرتے ہوئے دل دہل جاتے ہیں لیکن اس کی پشیمانی ان کے لیے کوئی نہیں جو اپنے آپ کو انسانی حقوق کا محافظ کہتے ہیں اور نہ ہی ان کے لیے ہے جو اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتے ہیں۔ برطانوی صحافی اور تاریخ دان السٹرلیمب اپنی کتاب "Kashmir — A Disputed Legacy” میں لکھتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد انگریزوں کو یہ پریشانی کھائے جا رہی تھی کہ برصغیر سے ان کی رخصتی کے بعد چین اور روس کی بڑھتے ہوئے اثرونفوذ کو کیسے روکاجا سکے گا۔

مسلمان تو ان کے لیے قابل اعتماد تھے ہی نہیں اور ان کے خیال میں پاکستان کے مقابلے میں بھارت زیادہ بہتر انداز میں ان کے مفادات کا تحفظ کر سکتا تھا اور اسی لیے بھارت کو مضبوط بنانے کے لیے اپنی اصول پرستی اور اخلاقیات کی تمام روایات کو روندتے ہوئے ضلع گورداسپور جو تقسیم ہند کے ابتدائی نقشے میں پاکستان کا حصہ ظاہر کیا گیا تھا لیکن اسے بعد کے نقشے میں بھارت کی جھولی میں ڈال کرانہوں نے ریاست میں بھارت کو داخلے کا بلاروک ٹوک راستہ مہیا کر دیا جبکہ طے شدہ منصوبے کے مطابق جون 1947ء پہلے ہی ریاست سے ملحقہ ہندو ریاستوں سے شدت پسند تنظیموں کے مسلح دستے ریاست میں داخل ہو کر پہلے ہی خوف و ہراس پھیلانے میں تھے اور ستمبر1947ء میں بھارت کی فوج نے بھی ریاست میں داخل ہو کر اس کے طول و عرض میں قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا تھا۔ قائداعظم ؒ نے اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کے سپہ سالار جنرل ڈگلس گریسی کو اس بارے میں مناسب کاروائی کرنے کا حکم دیا لیکن ان کے اس حکم کو دونوں ملکوں کی افواج کے مشترکہ سربراہ فیلڈ مارشل کلاڈ آرکنلیک نے کوئی کاروائی کرنے سے روک دیا۔

السٹرلیمب نے اپنی دوسری کتاب ” Dispute "Incomplete Partition: The Genesis of the Kashmir میں بھارت کے اس دعوے کو بھی باطل قرار دیا کہ اس کی فوجیں پاکستان کے قبائلی پٹھانوں کے لشکر کو روکنے اوران سے اپنی سرحدوں کے تحفظ کے لیے پٹھانکوٹ کے راستے جموں میں داخل ہوئیں حالانکہ 27 اکتوبر 1947ء تک مہاراجہ کی طرف سے الحاق نام کی کسی دستاویز، جس کے بارے میں السٹرلیمب کادعویٰ ہے کہ بھارت کے سرکاری ریکارڈ میں موجود ہی نہیں ہے، کے بغیر ہی بھارت کی فوجیں ریاست میں داخل ہو چکی تھیں۔ السٹرلیمب نے یہ بھی لکھا ہے کہ حقیقت یہ تھی کہ اگست 1947ء میں پونچھ میں ڈوگروں کے بڑھتے ہوئے مظالم، اپنے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی اور ناجائز ٹیکسوں کے خلاف بغاوت پھوٹ پڑی تھی اور اس کو کچلنے کے لیے مہاراجہ خود پوری قوت سے میدان میں اترا اور ریاستی طاقت کا اندھادھند استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کو بےدریغ تہہ تیغ کیا جا رہا تھا اور اس قتل عام سے قبائلی علاقوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور وہ اپنے مسلمان بھائیوں کو بھارتی و ڈوگرہ افواج اور ہندو متشدد جتھوں سے بچانے کے لیے 10اکتوبر 1947ء کے آس پاس ریاست میں داخل ہونا شروع ہو ئے تھے۔

مسلم اکثریت کی حامل ریاست جموں و کشمیر پر قابض ہندو ڈوگرے ہر وقت مسلمانوں کے خلاف کمربستہ رہتے تھے اور بھارت سے الحاق کی صورت میں انہیں پاکستان سے ملحقہ ریاست کے علاقوں میں بغاوت کا خدشہ تھا۔ اسی خدشے کے پیش نظر انہوں نے پورے جموں میں مسلمانوں کا بےدردی سے خون بہایا جس کا ایک مقصد تو بغاوت کو فرو کرنا تھا اور دوسرا جموں میں آبادی کے توازن کو بگاڑ کر مسلمانوں کی عددی حیثیت کوختم کرنا اور ہندوؤں کو اکثریت میں لانا تھا جو متشدد ہندو تنظیم جن سنگھ کے سربراہ شیاما پرساد مکھرجی کی سوچ کے مطابق مسلمانوں کے اجتماعی قتل عام سے ہی ممکن تھا اور اس منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں کی جائیدادیں لوٹ کر ان کے لیے جموں کی سرزمین تنگ کر دی گئی اور یہ منادی کی جانے لگی کہ جو لوگ پاکستان جانا چاہتے ہیں وہ پولیس لائن میں جمع ہو جائیں۔ ہندوؤ ں اور ڈوگرہ غنڈوں کے مظالم کے ستائے ہوئے بےخانماں مسلمان عزت و آبرو کی زندگی گزارنے کے لالچ میں جوق درجوق وہاں جمع ہوئے اور انہیں بسوں اور ٹرکوں میں سوار کر کے سیالکوٹ کی طرف روانہ کیا گیا لیکن راستے میں گھات لگائے ہوئے سکھ اور ہندو مہاسبھائی غنڈوں نے انہیں موت کے گھاٹ اتاردیا۔

ان دو دنوں میں انتہائی بےرحمی سے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی کہ جس سے پانی کی ندیاں خون آلود ہو گئیں، لاشوں سے کھیتوں کے کھیت اٹ گئے ا ور کاٹے گئے ان کے جسمانی اعضاء سے گڑھے بھی بھر گئے۔ برطانوی اداروں کے اندازے کے مطابق اس قتل عام میں بیس ہزار سے لے کر ایک لاکھ تک مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا گیا اوران سے بچ کر سیالکوٹ کے علاقوں میں پہنچنے والے مسلمانوں کی تعداد پانچ لاکھ کے قریب تھی۔ ٹائمز نے اپنی10 اگست 1947ء کی اشاعت میں ان کی تعداد 237000 لکھی تھی۔

یہ ایک باقاعدہ سوچی سمجھی ہوئی سازش تھی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس المناک سانحے کی گرہیں کھلتی جارہی ہیں اور اس میں ملوث اس وقت کے برطانوی، بھارتی اور ڈوگرہ حکمرانوں کی کارستانیاں بھی سامنے آرہی ہیں۔ اگر بھارتی حکومت اس پر پردہ نہ ڈالتی تو اس سے اس کی نام نہاد سیکولر سوچ پر بھی سوال اٹھتے اور کشمیر کے بھارت سے الحاق کی حقیقت بھی کھل کر سامنے آجاتی۔ اس سانحے سے بچ جانے والے آج بھی ان خونچکاں دنوں کو یاد کرتے ہیں اور اس سانحے میں اپنی جانوں سے گزرنے اور تاریک راہوں میں بچھڑنے والوں کو یاد کر کے ان کے نام کی شمعیں اور موم بتیاں روشن کر کے ان کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ جموں کے مسلمانوں کا قتل عام صر ف تقسیم کا شاخسانہ نہ تھا اور نہ ہی کوئی فرقہ وارانہ فسادات تھے بلکہ یہ بھارت کے توسیع پسندانہ اور مسلم نسل کشی کے خوفناک عزائم تھے جو اس بات کو بھی سچ ثابت کرتے ہیں کہ بھارتی سیکولرزم اور گاندھی جی کا نظریہ عدم تشدد ایک ڈھکوسلا تھا اور جو اس بات کو بھی آشکار کرتا ہے کہ بھارت شروع سے ہی ہندوانتہاپسندوں کے نرغے میں چلا گیا تھاجن کے ناپاک اور گمراہ کن نظریات کی تکمیل کے لیے بھارت مسلسل تباہی کے گڑھے میں دھنستاچلاجارہاہے!!!

پاکستان Previous post پاکستان ایشیا کی تیزی سے ابھرتی ہوئی ڈیجیٹل معیشتوں میں شامل ہے: شزا فاطمہ خواجہ
عوام Next post طاقت ہار گئی، عوام جیت گئے