
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا محکمہ تعلیم ختم کرنے کا ایگزیکٹو آرڈر
واشنگٹن، یورپ ٹوڈے: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر کے محکمہ تعلیم کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا، جو ان کے انتخابی وعدوں میں شامل تھا اور قدامت پسندوں کے دیرینہ مطالبات میں سے ایک رہا ہے۔
ٹرمپ نے محکمہ تعلیم کو “ناقابل یقین ناکامیوں” کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اس کے فنڈز ریاستوں کو واپس کرنے کا عزم ظاہر کیا۔
“ہم اسے جلد از جلد بند کر رہے ہیں،” ٹرمپ نے اعلان کیا، اگرچہ وائٹ ہاؤس نے تسلیم کیا کہ اس محکمے کو مکمل طور پر بند کرنے کے لیے کانگریس کی منظوری درکار ہوگی۔
قانونی چیلنجز اور سیاسی رکاوٹیں
محکمہ تعلیم کے بندش کے فیصلے کو پہلے ہی قانونی چیلنجز کا سامنا ہے، جبکہ گزشتہ ہفتے اعلان کردہ اسٹاف میں بڑی کٹوتیوں کے خلاف بھی مزاحمت ہو رہی ہے۔
جمعرات کو وائٹ ہاؤس میں منعقدہ ایک تقریب میں، جہاں بچے اسکول ڈیسک پر بیٹھے تھے، ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ تعلیم پر دیگر ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ خرچ کرتا ہے، مگر طلبہ کی کارکردگی عالمی سطح پر کمزور ہے۔
وائٹ ہاؤس کی حکمت عملی
وائٹ ہاؤس نے وضاحت کی کہ حکومت ایسے حصے ختم کرے گی جو قانونی دائرے میں آتے ہیں، تاہم مکمل خاتمہ کانگریس کی منظوری کے بغیر ممکن نہیں۔
ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کے دوران، ٹرمپ نے لِنڈا میک موہن کی تعریف کی، جنہیں محکمہ تعلیم کی قیادت سونپی گئی تھی، اور امید ظاہر کی کہ وہ اس محکمے کی “آخری سیکریٹری” ثابت ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ وہ میک موہن کے لیے انتظامیہ میں کوئی اور کردار تلاش کریں گے۔
ایگزیکٹو آرڈر کے فوری بعد، لوزیانا کے ریپبلکن سینیٹر بل کیسیڈی نے محکمہ تعلیم کو بند کرنے کے لیے قانون سازی کا اعلان کیا۔ تاہم، سینیٹ میں ریپبلکن پارٹی کے 53-47 کی معمولی اکثریت ہونے کے باعث اس منصوبے کو قانونی منظوری دینا ایک مشکل امر ہے، کیونکہ کسی بھی وفاقی محکمے کو ختم کرنے کے لیے 60 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔
تعلیم، طلبہ قرضے اور محکمہ کا کردار
اگرچہ محکمہ تعلیم براہ راست اسکول نہیں چلاتا، تاہم یہ وفاقی طلبہ قرضوں کی نگرانی کرتا ہے اور کم آمدنی والے طلبہ کے لیے امدادی پروگرام چلاتا ہے۔
ٹرمپ نے اس محکمے پر نسل، جنس اور سیاسی نظریات کے حوالے سے “طلبہ کی برین واشنگ” کا الزام لگایا۔
لِنڈا میک موہن نے بطور سیکریٹری محکمہ تعلیم کے 4,400 ملازمین کو ایک یادداشت بھیجی، جس کا عنوان تھا: “ہمارا حتمی مشن”، جو ٹرمپ کے اس ادارے کو بند کرنے کے منصوبے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
“یہ ہمارا موقع ہے کہ ہم امریکی تعلیم کو مزید آزاد، مضبوط اور امید افزا بنانے کے لیے ایک ناقابل فراموش عوامی خدمت انجام دیں،” انہوں نے لکھا۔
کانگریس میں مخالفت اور اساتذہ کی مزاحمت
امریکہ کی سب سے بڑی اساتذہ یونین نے ٹرمپ کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ “صدر ٹرمپ تمام طلبہ کے لیے مساوی تعلیمی مواقع کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں۔”
امریکن فیڈریشن آف ٹیچرز نے اپنے بیان میں کہا:
“کوئی بھی بیوروکریسی کو پسند نہیں کرتا اور ہر کوئی زیادہ کارکردگی کا خواہاں ہے، لیکن اساتذہ اور غریب بچوں کو نقصان پہنچا کر یہ مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا۔”
ٹرمپ کی حکومتی ایجنسیوں میں کمی کی پالیسی
ٹرمپ انتظامیہ دیگر حکومتی ایجنسیوں کی طرح محکمہ تعلیم کے فنڈز اور عملے میں بھاری کٹوتیاں کر سکتی ہے، جیسا کہ اس نے امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (USAID) کے ساتھ کیا، جس کے نتیجے میں کئی امدادی پروگرام بند ہو گئے۔
تقریباً 2,100 ملازمین کو جمعہ سے چھٹی پر بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ میں حکومتی اصلاحات کے منصوبے ٹیکنالوجی ارب پتی ایلون مسک کی نگرانی میں جاری ہیں، جو وفاقی اخراجات میں کمی اور متعدد ایجنسیوں کی تنظیم نو کے عمل کی قیادت کر رہے ہیں۔
نتائج اور ممکنہ اثرات
اگرچہ ایگزیکٹو آرڈر میں مخصوص اقدامات کا ذکر نہیں کیا گیا، لیکن اس کا مقصد محکمے کو ریاستی اور مقامی حکومتوں کے حوالے کرنا اور خدمات کے “بلا تعطل” تسلسل کو یقینی بنانا ہے۔
1979 میں قائم ہونے والا یہ محکمہ امریکی کابینہ کی سب سے چھوٹی ایجنسیوں میں شمار ہوتا ہے اور مجموعی وفاقی بجٹ کا 2 فیصد سے بھی کم استعمال کرتا ہے۔
یہ پیش رفت امریکہ کی تعلیمی پالیسی میں ایک بڑا موڑ ثابت ہو سکتی ہے، جس کے اثرات آنے والے مہینوں میں واضح ہوں گے۔