اکادمی

اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام دو روزہ کانفرنس "ادبیاتِ گلگت بلتستان: معاصر تناظر” کا سکردو میں افتتاح

اسلام آباد، یورپ ٹوڈے: ۲۸ ستمبر ۲۰۲۵ء: ‎اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی دو روزہ کانفرنس بعنوان” ادبیاتِ گلگت بلتستان : معاصر تناظر” کا افتتاحی اجلاس ۲۷ ستمبر ۲۰۲۵ء کو سکردو میں ہوا۔کانفرنس کی صدارت ممتاز تاریخ دان، محقق، نقاد اور دانش ور جناب یوسف حسین آبادی نے کی۔ مہمانانِ خصوصی سید امجد زیدی،صوبائی وزیر تعمیرات اور گلگت بلتستان کے قائد حزب اختلاف جناب محمد کاظم میثم تھے جب کہ نظامت کے فرائض جناب قاسم نسیم اور محترمہ کوثر پروین نے انجام دیے۔

‎ ڈاکٹر نجیبہ عارف،صدر نشین اکادمی،نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ آج کی کانفرنس اس سلسلے کی تیسری کانفرنس ہے ۔ اس سے قبل "ادبیاتِ سندھ: معاصر تناظر ” اور "ادبیاتِ خیبرپختونخوا: معاصر تناظر ” کے عنوان سے کانفرنسیں منعقد کی جا چکی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ گلگت بلتستان ایک کثیر لسانی خطہ ہے اور یہاں کی زبانیں ہماری ثقافتی ورثے کی نشانی ہیں۔ انھوں نے گلگت بلتستان کی بولی کے حوالے سے اکادمی کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات سے بھی سامعین کو آگاہ کیااور کہا کہ زبانیں محض اظہار کا ذریعہ نہیں ہوتیں بلکہ ہماری فکر کا منبع ہوتی ہیں ۔اکادمی عن قریب گلگت بلتستان کی زبانوں کے حوالے سے ایوارڈ کا اجرا کررہی ہے،جوگلگت بلتستان کی زبانوں کی بہترین کتب کو ہر سال دیے جائیں گے۔

‎ممتاز محقق،مؤرخ اور دانش ور جناب محمد حسن حسرت نے”گلگت بلتستان کا ادب اور معاصر سماج کے بدلتے تقاضے” کے عنوان سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ممتاز، شاعر اور نقاد جناب علی قربان نے “وخی:تاریخ، ثقافت و ادب” کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا اور سیر حاصل گفتگو کی۔

مہمانِ خصوصی جناب محمد کاظم میثم قائد حزب اختلاف،گلگت بلتستان نے کہا کہ زبان صرف اطلاع کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ ہر زبان اپنے بولنے والوں کی تاریخ ، ثقافت ، نفسیات اور فکر کی عکاسی کرتی ہے ۔اگر ہم نے اپنی ثقافت اور اپنی تاریخ کو زندہ رکھنا ہے تو ہمیں اپنی اپنی زبانوں کو زندہ رکھنا ہو گا ۔ انھوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے لوگوں نے مختلف زبانوں کو تخلیق کا ذریعہ بنایا ہے، جن میں عربی ، فارسی ، اردو اور انگریزی شامل ہیں۔

‎ممتاز مؤرخ , محقق اور دانش ور جناب محمد یوسف حسین آبادی نے کہا کہ ادب اور شاعری معاشرے کی ثقافت تاریخ اور نفسیات کی عکاسی ہوتے ہیں۔ ہم اپنے معاشرے کی مختلف پہلوؤں تک اس وقت تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے ہیں جب تک ہم اس کے ادب کا مطالعہ نہ کر لیں ۔ انھوں نے اکادمی کے زیر اہتمام ہونے والی کانفرنس کے انعقاد پر اکادمی کا شکریہ ادا کیا۔

رومانیہ Previous post رومانیہ کے سفیر کی NUST کے ریکٹر سے ملاقات، علمی و ثقافتی تعاون کو فروغ دینے پر تبادلہ خیال
مارکہ حق Next post وزیراعظم شہباز شریف: مارکہ حق میں بھارت کو زندگی بھر یاد رہنے والا سبق سکھایا گیا