
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایران اور اسرائیل کے درمیان مرحلہ وار جنگ بندی کا اعلان
واشنگٹن، یورپ ٹوڈے: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ ایران اور اسرائیل نے ایک مرحلہ وار جنگ بندی پر اتفاق کر لیا ہے جو منگل کی صبح تقریباً 0400 جی ایم ٹی سے نافذ العمل ہوگی۔ اس پیش رفت کو دونوں علاقائی طاقتوں کے درمیان تقریباً دو ہفتے سے جاری شدید اور بے مثال دشمنی کے خاتمے کی امید کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ٹرمپ نے یہ اعلان اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ٹروتھ سوشل” کے ذریعے کیا، جس میں انہوں نے اس معاہدے کو “مکمل اور جامع جنگ بندی” قرار دیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ جنگ بندی کا آغاز ایران کی جانب سے کارروائیاں روکنے سے ہوگا، جب کہ اسرائیل 12 گھنٹے بعد اپنا ردعمل معطل کرے گا۔ اس تدریجی ٹائم لائن کا مقصد دونوں فریقین کو اپنے جاری عسکری اقدامات مکمل کرنے اور اچانک تبدیلی سے بچنے کا موقع دینا ہے۔
ٹرمپ نے اپنے بیان میں لکھا: “یہ اس جنگ کا باضابطہ اختتام ہوگا جسے ’12 روزہ جنگ‘ کہا جانا چاہیے۔ اگر سب کچھ منصوبے کے مطابق ہوا، جو یقیناً ہوگا، تو میں دونوں ممالک، اسرائیل اور ایران، کو اس تنازع کے خاتمے کے لیے ان کی ہمت، استقامت اور دانشمندی پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔”
تنازع کا پس منظر
یہ کشیدگی 13 جون کو اس وقت شروع ہوئی جب اسرائیل نے ایران کی عسکری، شہری اور جوہری تنصیبات، بشمول حساس ترین فردو یورینیم افزودگی مرکز، پر مربوط فضائی حملے کیے۔ اس کے جواب میں تہران نے اسرائیلی شہروں اور فوجی اہداف پر بیلسٹک میزائلوں کی شدید بارش کی۔
صورتحال اس وقت مزید بگڑ گئی جب 22 جون کو امریکہ نے بھی مداخلت کی اور ایران کے تین بڑے جوہری مراکز پر فضائی حملے کیے۔ ایران نے اس کے ردعمل میں قطر میں امریکی العدید ایئر بیس پر میزائل داغے، جس سے خطے میں مکمل جنگ کا خطرہ پیدا ہوگیا۔
خفیہ سفارتی کوششیں
اگرچہ ٹرمپ نے جنگ بندی کے معاہدے میں کردار ادا کرنے والی ثالث قوتوں کا براہ راست ذکر نہیں کیا، تاہم سفارتی ذرائع کے مطابق عمان اور سوئٹزرلینڈ کی پس پردہ سفارتی کوششیں اس عمل میں کلیدی رہیں۔ ان ممالک نے حالیہ دنوں میں تہران اور تل ابیب کے درمیان رابطہ قائم کر کے کشیدگی میں کمی اور شہری ہلاکتوں کی روک تھام کے لیے انتھک کوششیں کیں۔
ٹرمپ نے اپنے بیان میں دونوں ممالک کے فیصلے کو سراہا اور کہا کہ یہ معاہدہ کشیدگی کے “مربوط خاتمے” کی علامت ہے اور فریقین کی امن کی طرف پیش قدمی کی آمادگی قابل تعریف ہے۔
انسانی نقصان اور علاقائی اثرات
12 روزہ اس کھلی جنگ نے خطے میں وسیع پیمانے پر تباہی اور انسانی نقصان پہنچایا۔ ایرانی حکام کے مطابق سینکڑوں شہریوں اور فوجی اہلکاروں، بشمول پاسداران انقلاب کے ارکان، کی ہلاکتیں ہوئی ہیں، جبکہ اسرائیل نے بھی درجنوں اموات اور ہنگامی حالات کے نفاذ کی تصدیق کی ہے۔
دونوں ممالک میں شہری آبادی کو مسلسل فضائی حملوں اور میزائلوں کا سامنا رہا، جس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر نقل مکانی، بنیادی ڈھانچے کی تباہی اور طویل جنگ کے خدشات میں اضافہ ہوا۔
اگر یہ جنگ بندی کامیابی سے نافذ ہو جاتی ہے، تو اس سے نہ صرف ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی میں کمی آئے گی بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں بھی ایک ممکنہ بڑی جنگ کے خطرے کو ٹالا جا سکے گا، جہاں کئی ممالک اس تنازع کی وسعت سے پریشان تھے۔
تاحال اسرائیل یا ایران کی جانب سے اس جنگ بندی کے معاہدے پر کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔ عالمی مبصرین اس بات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں کہ آیا یہ مرحلہ وار جنگ بندی برقرار رہتی ہے یا نہیں، اور آیا یہ کسی طویل المدتی سفارتی عمل کی شروعات ثابت ہو سکتی ہے۔