پارلیمنٹ

برطانوی پارلیمنٹ کے 220 سے زائد ارکان کا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مطالبہ، سر کیئر اسٹارمر پر دباؤ میں اضافہ

لندن، یورپ ٹوڈے: برطانیہ کی پارلیمنٹ کے ایک تہائی سے زائد ارکان نے لیبر پارٹی کے سربراہ اور وزیراعظم سر کیئر اسٹارمر کو ایک خط پر دستخط کیے ہیں، جس میں برطانیہ سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق، نو مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے تقریباً 220 ارکانِ پارلیمنٹ نے اس خط کی حمایت کی ہے، جن میں سے نصف سے زیادہ کا تعلق لیبر پارٹی سے ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا ایک “موثر پیغام” اور دو ریاستی حل کی جانب ایک اہم قدم ہوگا۔

یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب فرانس نے آئندہ چند مہینوں میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے، جس کے بعد وزیراعظم اسٹارمر پر دباؤ میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون اور جرمن رہنما فریڈرش مرٹز کے ساتھ ایک ہنگامی ٹیلیفونک گفتگو کے بعد جاری کردہ بیان میں سر کیئر اسٹارمر نے کہا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا ایک “وسیع تر منصوبے” کا حصہ ہونا چاہیے، جو بالآخر دو ریاستی حل پر منتج ہو۔

اپنے بیان میں سر کیئر اسٹارمر نے کہا:
“ہم اپنے قریبی اتحادیوں کے ساتھ مل کر مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے ایک عملی راستہ تلاش کر رہے ہیں، جو اُن لوگوں کی زندگیوں میں حقیقی بہتری لائے گا جو اس جنگ میں تکلیف اٹھا رہے ہیں۔”

“یہ راستہ ان ٹھوس اقدامات کو واضح کرے گا جو فوری جنگ بندی کو پائیدار امن میں تبدیل کرنے کے لیے درکار ہیں۔”

انہوں نے مزید کہا، “فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا ان اقدامات میں سے ایک ہونا چاہیے، اور میں اس بارے میں دوٹوک مؤقف رکھتا ہوں۔ لیکن یہ ایک ایسے وسیع منصوبے کا حصہ ہونا چاہیے جو دو ریاستی حل اور فلسطینیوں اور اسرائیلیوں دونوں کے لیے پائیدار سلامتی پر منتج ہو۔”

برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے رہنماؤں کی مشترکہ ہنگامی کال کے بعد جاری کردہ بیان میں فلسطینی ریاست کے حوالے سے کوئی واضح ذکر نہیں کیا گیا، تاہم تینوں ممالک نے فوری جنگ بندی اور ایک سیاسی عمل کی حمایت پر آمادگی ظاہر کی ہے، جو اسرائیلیوں، فلسطینیوں اور پورے خطے کے لیے پائیدار سلامتی اور امن کی جانب لے جائے۔

بیان میں اسرائیلی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے امدادی پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا اور کہا گیا کہ “غزہ میں جو انسانی المیہ جاری ہے، اسے فوری طور پر ختم کیا جانا چاہیے۔”

بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ حماس کو غیر مسلح کیا جانا چاہیے اور “اسے غزہ کے مستقبل میں کوئی کردار نہیں دیا جا سکتا۔”

یہ خط اس وقت سامنے آیا ہے جب برطانیہ اور دیگر 27 ممالک نے غزہ میں خوراک اور پانی کے لیے قطار میں کھڑے شہریوں پر حملوں اور امداد کی مرحلہ وار فراہمی کی شدید مذمت کی ہے۔

اسرائیل، جو فلسطینی علاقوں میں تمام سامان کی ترسیل کو کنٹرول کرتا ہے، نے بارہا دعویٰ کیا ہے کہ کوئی محاصرہ نہیں ہے، اور غذائی قلت کے کسی بھی واقعے کا الزام حماس پر عائد کیا ہے۔

اسرائیلی وزارت خارجہ نے مذکورہ ممالک کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ “حقیقت سے لاتعلق ہے اور حماس کو غلط پیغام دیتا ہے”۔

پاکستان Previous post پاکستان اور امریکہ کے درمیان دوطرفہ تعلقات کے فروغ پر اتفاق: اسحاق ڈار اور امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کی ملاقات
بارشیں Next post جب بارشیں بے رحم ہو جاتی ہیں