
پاکستان کی سڑکوں پر بدمست ڈمپر اور انسانی جانوں کا ضیاع
پاکستان میں بھاری گاڑیوں کے باعث سڑکوں پر ہونے والی ہلاکتوں میں اضافہ ایک سنگین مسئلہ ہے جو گورننس، قوانین، اور نفاذ میں موجود نظامی ناکامیوں کو اجاگر کرتا ہے۔ ان حادثات کا قریب سے تجزیہ کرنے پر ایک تشویشناک تصویر سامنے آتی ہے جس میں غفلت، بدعنوانی، اور نااہلی کا ایک سلسلہ نظر آتا ہے، جو ٹریفک قوانین اور نافذ العمل اقدامات کے باوجود انسانی جانوں کو مسلسل خطرے میں ڈال رہا ہے۔ یہ صورتحال فوری توجہ کی متقاضی ہے کیونکہ بڑھتی ہوئی ہلاکتیں ٹریفک مینجمنٹ اور ریگولیٹری نظام میں جامع اصلاحات کی اشد ضرورت کو ظاہر کرتی ہیں۔
کراچی، جو پاکستان کا معاشی مرکز ہے، وہاں بھاری گاڑیوں سے متعلق حادثات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ 2025 کے ابتدائی 37 دنوں میں 99 بڑے حادثات ہوئے جن میں 39 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ صرف 6 فروری کے دن 5 افراد جاں بحق ہوئے جن میں ملیر ہالٹ پر ایک باپ بیٹا اور میلینیئم مال کے قریب تین دیگر افراد شامل تھے۔ فروری کے وسط تک صرف 45 دنوں میں اموات کی تعداد 108 تک پہنچ چکی تھی۔ سرگودھا میں جنوری کے مہینے میں ڈمپرز میں غیر قانونی تبدیلیوں کے باعث 12 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ اسلام آباد میں آئی جے پی روڈ پر 28 مارچ کو ایک ڈمپر کے الٹنے سے 15 سالہ لڑکی سمیت چار افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مارچ کے مہینے میں لاڑکانہ میں بھی بھاری گاڑیوں کی لاپرواہی سے کئی ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں۔ یہ واقعات پاکستان کے مختلف شہروں میں عام ہو چکے ہیں، جو اس بحران کی شدت کو واضح کرتے ہیں۔
ان حادثات کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی بنیادی وجوہات میں غفلت سے ڈرائیونگ، گاڑیوں میں غیر قانونی تبدیلیاں، اور قانون کے نفاذ میں کمزوری شامل ہیں۔ ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ زیادہ تر بھاری گاڑیوں کے ڈرائیورز مسلسل بغیر آرام کیے ڈرائیو کرتے ہیں اور ڈیلیوری شیڈول پورا کرنے کے دباؤ میں تھکن سے نمٹنے کے لیے نشہ آور اشیاء اور منشیات کا استعمال کرتے ہیں، جس سے ان کی قوت فیصلہ اور ردعمل کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے، جو ان کے لیے اور دوسروں کے لیے شدید خطرہ بن جاتی ہے۔ ان میں سے کئی ڈرائیورز کسی باقاعدہ تربیت کے بغیر سڑکوں پر ہوتے ہیں اور ٹریفک قوانین کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
غیر مجاز تبدیلیاں، مثلاً گاڑی کی اونچائی میں اضافے اور اوورلوڈنگ، گاڑی کو قابو میں رکھنا مشکل بنا دیتی ہیں جس سے حادثات کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ محکمہ ٹرانسپورٹ میں موجود بدعنوانی غیر موزوں گاڑیوں کو سڑکوں پر چلنے کی اجازت دیتی ہے، جو مسئلے کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔ اگرچہ کراچی میں اب تک 34,000 سے زائد چالان کیے جا چکے ہیں اور 490 ڈرائیورز کو گرفتار بھی کیا گیا ہے، مگر حادثات کی روک تھام نہیں ہو سکی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ محض سزا دینا کافی نہیں۔ یہ ایک گہری حکومتی اور انتظامی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے جہاں نظامی خامیاں اور احتساب کا فقدان موثر اصلاحات میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ممنوعہ اوقات میں بھی بھاری گاڑیوں کی نقل و حرکت اس امر کا ثبوت ہے کہ نگرانی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان ہم آہنگی شدید طور پر ناکافی ہے۔
ان مسلسل حادثات کی ذمہ داری ہر سطح پر بٹی ہوئی ہے۔ ٹرانسپورٹ حکام اور مقامی انتظامیہ سخت قوانین پر عملدرآمد کرانے میں ناکام ہیں۔ ٹرک مالکان اور کمپنیاں مالی فائدے کو انسانی جانوں پر ترجیح دیتی ہیں، غیر تربیت یافتہ ڈرائیورز کو بھرتی کرتی ہیں اور گاڑیوں کی مناسب دیکھ بھال سے غفلت برتتی ہیں۔ انفرادی طور پر لاپرواہی سے ڈرائیونگ کرنے والے افراد بھی صورتحال کو مزید خطرناک بنا دیتے ہیں۔ جدید روڈ سیفٹی انفراسٹرکچر، جیسے سی سی ٹی وی کیمرے اور سمارٹ ٹریفک مینجمنٹ سسٹمز کی عدم موجودگی مسئلے کو مزید گھمبیر بنا دیتی ہے۔
اس کے برعکس مغربی دنیا اور مشرق وسطیٰ کے ترقی یافتہ ممالک نے ٹریفک قوانین کے سخت نفاذ، جدید حفاظتی اقدامات، اور ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے سڑک حادثات میں نمایاں کمی کی ہے۔ یورپ اور شمالی امریکہ میں بھاری گاڑیوں کی آمدورفت سخت ریگولیٹ کی جاتی ہے۔ ڈرائیورز کی تربیت، لائسنسنگ، اور گاڑیوں کی فٹنس کے سخت معیار مقرر ہیں۔ کمرشل گاڑیوں میں اسپیڈ لمیٹر، آٹومیٹک بریکنگ سسٹم، اور جی پی ایس ٹریکنگ لازمی ہے۔ نگرانی خودکار کیمروں کے ذریعے کی جاتی ہے اور بھاری جرمانے و لائسنس معطلی مؤثر سزاؤں کے طور پر کام کرتے ہیں۔ شہروں کی منصوبہ بندی میں بھاری گاڑیوں کے لیے علیحدہ لینز اور مخصوص اوقات کی پابندی شامل کی جاتی ہے۔
مشرق وسطیٰ خصوصاً متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے بھی اسی طرز کے اقدامات کے ذریعے نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ سخت ٹریفک قوانین، الیکٹرانک نگرانی کے نظام، اور بھاری جرمانوں نے حادثات میں خاطر خواہ کمی لائی ہے۔ یو اے ای کا سمارٹ ٹریفک مینجمنٹ سسٹم حقیقی طور پر خلاف ورزیوں کی نگرانی کرتا ہے، جس سے فوری کارروائی ممکن ہو جاتی ہے۔ بھاری گاڑیوں کے ڈرائیورز کے لیے تربیتی کورسز لازمی ہیں اور قوانین پر عمل نہ کرنے والی کمپنیوں کو بھاری جرمانے یا معطلی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے استعمال سے ان ممالک میں ٹریفک کی نگرانی مزید مؤثر ہو گئی ہے۔
پاکستان ان کامیاب ماڈلز سے سیکھ کر بھاری گاڑیوں کے بڑھتے حادثات کو کنٹرول کر سکتا ہے۔ اس کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، گاڑیوں کے فٹنس سرٹیفکیٹس کے سخت نفاذ کو یقینی بنایا جائے تاکہ صرف محفوظ گاڑیاں سڑکوں پر آئیں۔ غیر مجاز تبدیلیوں اور غیر تربیت یافتہ ڈرائیورز کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور ڈرائیورز کے لیے لازمی تربیتی پروگرام متعارف کروائے جائیں۔ خودکار کیمروں کے ذریعے نگرانی اور سخت سزائیں لاگو کی جائیں تاکہ خلاف ورزی کرنے والوں کو مؤثر طور پر روکا جا سکے۔ ساتھ ہی، جدید انٹیلیجنٹ ٹریفک سسٹمز اور مصنوعی ذہانت پر مبنی نگرانی میں سرمایہ کاری کی جائے تاکہ ٹریفک مینجمنٹ میں بہتری لائی جا سکے۔
شہری منصوبہ بندی میں بھاری گاڑیوں کے لیے مخصوص لینز اور محدود اوقات کی شمولیت ناگزیر ہے تاکہ رش کم ہو اور خطرات کم ہوں۔ عوامی شعور بیداری مہمات بھی اہم ہیں تاکہ ڈرائیورز اور پیدل چلنے والوں کو روڈ سیفٹی سے آگاہ کیا جا سکے۔ حکومت کو لائسنسنگ پالیسیوں پر نظرثانی کرنی چاہیے تاکہ صرف ذمہ دار اور اہل افراد ہی بھاری گاڑیاں چلانے کے قابل ہوں۔ ایسے بدعنوان اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے جو ناقص گاڑیوں کو سڑک پر آنے دیتے ہیں۔
پاکستان میں ڈمپرز اور بھاری گاڑیوں کے باعث بڑھتی ہوئی ہلاکتیں ایک گہرے بحران کی علامت ہیں جس کی جڑیں نظامی ناکامی، بدعنوانی اور احتساب کے فقدان میں پیوست ہیں۔ اگر فوری اور مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو سڑکیں مزید غیر محفوظ ہوتی جائیں گی اور قیمتی جانوں کا ضیاع جاری رہے گا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ٹریفک گورننس میں اصلاحات، قانون کے سخت نفاذ، اور روڈ سیفٹی کی ثقافت کو فروغ دے کر اس سنگین مسئلے کا حل نکالا جائے۔ عالمی تجربات سے سیکھنا اور جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لانا ہی اس بحران سے نمٹنے کا مؤثر راستہ ہے اور محفوظ سڑکوں کی ضمانت بھی۔