
حرمتِ مصطفیٰ ﷺ—ایمان، تاریخ اور پارلیمنٹ کی یکجا آواز
گزشتہ منگل کو قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیرِ صدارت مجلسِ شوریٰ کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا، جس میں کئی اہم قانون سازی کے مراحل مکمل کیے گئے۔ ان میں نیشنل کمیشن فار مائناریٹیز بل 2025 بھی شامل تھا، جس کے حوالے سے چند ارکانِ پارلیمنٹ نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ اس پر اسپیکر سردار ایاز صادق اور وزیرِ قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے نہایت وضاحت اور اعتماد کے ساتھ ایوان کو یقین دلایا کہ یہ بل کسی بھی پہلو سے عقیدۂ ختمِ نبوت پر اثرانداز نہیں ہوتا۔ انہوں نے واضح کیا کہ قادیانیوں اور ان سے منسلک کسی گروہ کے لیے کسی قسم کی کوئی رعایت دینا ممکن نہیں، کیونکہ آئین میں انہیں غیر مسلم قرار دیا جا چکا ہے۔ اس موقعہ پر پارلیمنٹ رسولِ اکرم ﷺ کی ختمِ نبوت کے اعلان سے گونج اُٹھی، اور پوری قوم نے ایک مرتبہ پھر اپنے ایمان اور عزتِ نفس کی رہنمائی میں اس عہد کی تجدید کی کہ حضور ﷺ کی حرمت ہر دنیاوی چیز سے بالاتر ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے الفاظ صرف اُن کے ذاتی جذبات نہیں تھے بلکہ پوری پاکستانی مسلمان قوم کے اجتماعی ضمیر کی ترجمانی تھے۔ قرآنِ کریم خود نہایت واضح انداز میں اعلان کرتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ خاتم النبیین ہیں اور اہلِ ایمان کو حکم دیتا ہے کہ وہ حضور ﷺ کی عزت و توقیر میں حد درجہ ادب ملحوظ رکھیں۔ سورۃ الحجرات میں آپ ﷺ کی بارگاہ میں گفتگو کے آداب بیان کیے گئے ہیں، جن میں آواز پست رکھنے اور نرم لہجے سے پیش آنے کی تلقین کی گئی ہے۔ صدیوں سے مسلمان اس ادب و محبت کا اظہار ایسے انداز میں کرتے آئے ہیں کہ تاریخ نے انہیں اپنے سینے میں سنبھال کر رکھا ہے—یہ ایسی وارفتگیاں ہیں جن پر کتب خانے قائم ہو سکتے ہیں۔
محبتِ رسول ﷺ کے ایسے منور نمونوں میں عثمانی سلطنت نمایاں ترین ہے، جس کے حکمران اپنے آپ کو صرف ایک سیاسی ریاست کے حاکم نہیں بلکہ حرمین شریفین کی خدمت کے مقدس امانت دار سمجھتے تھے۔ ان میں سلطان عبدالحمید ثانی کا نام عقیدت و محبت کے چراغ کی طرح روشن ہے۔ 1842 میں پیدا ہونے والے سلطان عبدالحمید نے سیاسی بحرانوں کے دور میں تخت سنبھالا، مگر اُن کے دل میں رسول اللہ ﷺ کے لیے ایسی نرمی اور محبت موجزن تھی کہ یہ کیفیت اُن کی حکمرانی کے چھوٹے سے چھوٹے فیصلے تک میں جھلکتی تھی۔
جب انہوں نے جرمنی کے ساتھ مشہورِ زمانہ حجاز ریلوے منصوبے کا معاہدہ کیا تو ایک شرط تاریخ میں محبت کی سرگوشی بن کر گونجتی رہی۔
"جب مزدور مدینہ منورہ سے بیس کلومیٹر کے فاصلے پر پہنچیں گے تو اپنے ہتھوڑوں پر کپڑا لپیٹ لیں گے، تاکہ شہرِ رسول ﷺ میں کوئی سخت آواز گونج نہ سکے”۔
1908 میں مکمل ہونے والی یہ ریلوے لائن، جو استنبول سے مدینہ تک جاتی تھی، محض انجینیئرنگ کا شاہکار نہیں تھی؛ یہ دراصل عشقِ رسول ﷺ کا پُرشکوہ اظہار تھا۔ اس کا مقصد حجاجِ کرام کیلئے سفر کو آسان بنانا اور دارالحکومت کو مدینہ منورہ کے ساتھ مضبوط رشتے میں باندھنا تھا۔
آج بھی مدینہ میں ترک ریلوے اسٹیشن اس دور کی یادوں کو خاموشی میں سمیٹے کھڑا ہے۔ انہی یادوں میں ایک دل گداز واقعہ محفوظ ہے: افتتاح کے لیے تیار کیا گیا انجن جب سلطان عبدالحمید ثانی کے معائنے کیلئے پیش کیا گیا تو اس کی کھڑکھڑاہٹ ان کے دل پر بار ہوئی۔ شہرِ رسول ﷺ میں ایسے شور کو وہ برداشت نہ کر سکے۔ انہوں نے زمین سے ایک چھوٹا سا پتھر اٹھایا اور آہستہ سے انجن پر مار کر فرمایا
“رسول اللہ ﷺ کے شہر میں اتنی بلند آواز—کیوں کر ہو سکتی ہے؟”
وہ انجن آج بھی مدینہ میں خاموش کھڑا ہے، جیسے وقت اسی لمحے پر ٹھہر گیا ہو—ایک عاشقِ رسول کے ادب کا خاموش مینار۔
فارسی ادب نے ایسے مناظر کو لازوال اشعار میں یوں سمیٹا ہے:
ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر نفس گم کردہ می آید جنید وبا یزید ایں جایعنی
آسمان کے نیچے ادب کی ایک ایسی جگہ ہے جو عرش سے بھی نازک ہے، جہاں جنیداور بایزید جیسے بزرگ بھی سانس روک کر حاضر ہوتے ہیں۔
یہی ’’ادب‘‘ صدیوں سے اسلامی تہذیب کی روح رہا ہے۔ یہ صرف بادشاہوں یا علما تک محدود نہیں تھا بلکہ عام مسلمانوں کے دلوں میں موجزن رہتا تھا۔ برصغیر کی سرزمین بھی ایسے ایمان افروز واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اور اس جذبۂ عقیدت کی سب سے طاقتور آواز علامہ محمد اقبال کی ہے جنہوں نے اس محبت کو امر کردیا:
کی محمد ﷺ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
اقبال کا یہ شعر محض شاعری نہیں بلکہ ایک فلسفہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ سے سچی وفا انسان کو قوت، استقامت اور وہ ہمت عطا کرتی ہے جو تقدیر کا دھارا موڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہی وفا انسان کے ارادے کو خدا کی رضا سے ہم آہنگ کرتی ہے۔
محبتِ رسول ﷺ کے یہ رنگ ہماری تاریخ کے ہر دور میں سنہری دھاگے کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ یاد دہانی یہ ہے کہ اگرچہ قوانین اور دستور ہمارے عقائد کو مدون کرتے ہیں، مگر مسلمان دل میں بستے ہوئے عشقِ رسول ﷺ کی گہرائی کہیں زیادہ ہے۔ پارلیمنٹ میں عقیدہ ختمِ نبوت کی توثیق کوئی محض سیاسی اعلان نہ تھا، بلکہ صدیوں پر محیط اُس روایتِ محبت اور وفاداری کا تسلسل تھا جو مسلمانوں کے ایمان کی بنیاد ہے۔
مدینہ میں بچھائی گئی سلطان عبدالحمید کی خاموش ریل پٹڑیوں سے لے کر اقبال کے پُرجوش اشعار تک، قرآن کی تعلیمات سے لے کر پاکستانی قوم کے عقیدے تک—ایک سچائی ہمیشہ درخشاں رہتی ہے
رسول اللہ ﷺ کی محبت ہی ہمارے ایمان کا جوہر ہے اور ہماری شناخت کی روح۔
اللہ ہمیں اس محبت پر ہمیشہ ثابت قدم رکھے۔ آمین۔