
امریکہ کا نیا ٹیرف منصوبہ: ویتنام پر 46 فیصد درآمدی ٹیکس عائد
ہنوئی، یورپ ٹوڈے: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تمام درآمدات پر نیا بنیادی ٹیرف ریٹ 10 فیصد مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے، جبکہ ان ممالک پر زیادہ نرخ عائد کیے جائیں گے جن کا امریکہ کے ساتھ تجارتی خسارہ زیادہ ہے۔ اس پالیسی کے تحت ویتنام پر 46 فیصد ٹیرف نافذ کیا جائے گا، جو کمبوڈیا کے بعد دوسرا سب سے زیادہ شرح والا ملک ہے، جس پر 49 فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔
دیگر متاثرہ معیشتوں میں چین (34 فیصد)، یورپی یونین (20 فیصد)، بھارت (26 فیصد) اور جاپان (24 فیصد) شامل ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا میں تھائی لینڈ پر 36 فیصد، انڈونیشیا پر 32 فیصد، ملائیشیا پر 24 فیصد، فلپائن پر 17 فیصد اور سنگاپور پر 10 فیصد ٹیرف نافذ کیا جائے گا۔
ویتنام، امریکہ کے اہم تجارتی شراکت داروں میں سے ایک ہے، جس کی امریکی منڈی میں برآمدات 2023 میں تقریباً 124 ارب امریکی ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔ متوقع ٹیرف بڑے صنعتی شعبوں، بشمول ٹیکسٹائل، جوتے، فرنیچر، الیکٹرانک پرزہ جات اور سمندری خوراک پر نمایاں اثر ڈال سکتا ہے۔
امریکہ ویتنامی ٹیکسٹائل صنعت کے لیے سب سے بڑی منڈی ہے، جو اس صنعت کی کل برآمدات کا تقریباً 50 فیصد حصہ رکھتی ہے۔ بڑے ادارے جیسے کہ ویناٹیکس، مئی 10 اور ٹی این جی، اس پالیسی کے نتیجے میں مالی دباؤ کا شکار ہوسکتے ہیں کیونکہ زیادہ لاگت کے سبب امریکی شراکت داروں کے آرڈرز میں کمی متوقع ہے۔
تکنیکی شعبہ بھی اس پالیسی سے متاثر ہوگا۔ دنیا کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی کمپنی، ایپل، نے اپنے کچھ پیداواری یونٹ چین سے ویتنام منتقل کیے تھے تاکہ پہلے کے امریکی ٹیرف سے بچا جا سکے۔ تاہم، نئے 46 فیصد ٹیرف کے نتیجے میں، فاکس کون، لکشیر اور پیگاٹرون جیسے سپلائرز کو زیادہ پیداواری اخراجات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ویڈ بش سیکیورٹیز کے تجزیہ کار ڈین آئیوز نے کہا، “اگر یہ ٹیرف نافذ ہوا، تو ایپل اور دیگر ٹیکنالوجی کمپنیوں کو اپنی مینوفیکچرنگ حکمت عملی پر نظرثانی کرنا پڑے گی۔ چین سے ویتنام میں پیداوار منتقل کرنا اب قابل عمل حل نہیں رہے گا۔”
یہ پیش رفت بین الاقوامی کمپنیوں کو بھارت یا میکسیکو جیسے متبادل پیداواری مقامات تلاش کرنے پر مجبور کر سکتی ہے، جو ویتنام کی غیرملکی سرمایہ کاری (FDI) کے لیے کشش کو کم کر سکتی ہے۔
وائٹ ہاؤس کے بیان کے مطابق، عمومی 10 فیصد ٹیرف 5 اپریل سے نافذ العمل ہوگا، جبکہ مخصوص ممالک پر زیادہ ٹیرف 9 اپریل سے لاگو ہوں گے۔ اس سے ویتنامی برآمد کنندگان کو اقتصادی اثرات سے نمٹنے کے لیے ایک ہفتے سے بھی کم وقت ملے گا۔
ماہرین نے تجویز دی ہے کہ ویتنام کو سفارتی کوششیں تیز کرنی چاہئیں تاکہ اسٹریٹجک مصنوعات کے لیے استثنیٰ یا ٹیرف میں کمی حاصل کی جا سکے۔ مزید برآں، برآمدات کو یورپ، جاپان، جنوبی کوریا اور مشرق وسطیٰ تک پھیلانے سے ان منفی اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔
امریکی کمپنیوں کو ویتنام کے پیداواری شعبے میں براہ راست سرمایہ کاری کی ترغیب دینا بھی ایک اہم حکمت عملی سمجھا جا رہا ہے۔ مزید برآں، مقامی کاروباری اداروں کو مالی اور ٹیکس پالیسی کی مدد فراہم کرنا ضروری ہوگا تاکہ وہ ان نئے تجارتی حالات کے مطابق خود کو ڈھال سکیں۔
ویتنام کی برآمدی صنعت کو ایک چیلنجنگ دور کا سامنا ہے، جس کے لیے تیز رفتار اور حکمت عملی پر مبنی ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت ہوگی تاکہ مسابقت کو برقرار رکھا جا سکے اور اقتصادی ترقی کو یقینی بنایا جا سکے۔