کویت

ویتنامی وزیراعظم کا کویت ڈپلومیٹک انسٹیٹیوٹ میں پالیسی خطاب، دوطرفہ تعلقات کو اسٹریٹجک شراکت داری تک لے جانے کا عزم

کویت سٹی، یورپ ٹوڈے: ویتنام کے وزیراعظم فام منہ چنھ نے منگل کو اپنے سرکاری دورۂ کویت کے دوران کویت ڈپلومیٹک انسٹیٹیوٹ میں اہم پالیسی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ویتنام–کویت تعلقات تیزی سے ایک نئے اور متحرک مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں اور جنوب مشرقی ایشیا اور خلیج کے مابین ایک مثالی شراکت داری بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے اس تعلق کو ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان ایک مضبوط دوستی کے پل سے تعبیر کیا۔

وزیراعظم نے امیرِ کویت، ولی عہد، حکومت اور عوام کی جانب سے پرتپاک اور گرمجوش استقبال پر گہری قدردانی کا اظہار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ گزشتہ 16 برسوں میں کسی اعلیٰ سطحی ویتنامی رہنما کا پہلا دورہ ہے، جو دونوں ممالک کے مابین 2026 میں سفارتی تعلقات کی 50ویں سالگرہ کی تیاریوں کے موقع پر ہو رہا ہے۔

اپنے خطاب میں وزیراعظم چنھ نے موجودہ عالمی منظرنامے کا جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اکیسویں صدی کے آغاز میں دنیا غیر معمولی چیلنجز، غیریقینی صورتحال اور باہمی جڑے ہوئے خطرات و مواقع کا سامنا کر رہی ہے۔ انہوں نے عالمی تعلقات میں چھ بڑے تضادات کی نشاندہی کی، تاہم اس بات پر زور دیا کہ سیاسی تقسیم، معاشی بکھراؤ، ادارہ جاتی تفاوت اور غیرمتوازن ترقی جیسے مسائل کے باوجود امن، تعاون اور ترقی تمام اقوام کی بنیادی خواہش ہیں۔

انہوں نے مشرقِ وسطیٰ کی اسٹریٹجک اہمیت پر زور دیتے ہوئے اسے براعظم ایشیا، یورپ اور افریقہ کا سنگم، تین بڑی عالمی مذاہب کا مرکز اور عالمی توانائی و تجارت کا محور قرار دیا۔

وزیراعظم چنھ نے کہا کہ اگرچہ ہر ملک کی ترقی کا راستہ مختلف ہے، تاہم ویتنام اور کویت کا مشترکہ وژن خلوص، برابری، احترام، باہمی اعتماد اور اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے اصولوں کی روشنی میں تعاون کو فروغ دینا ہے، تاکہ ایک پُرامن، مستحکم اور پائیدار دنیا کی تشکیل ممکن ہو سکے۔ انہوں نے دونوں ممالک کی امن، انصاف، ہمدردی اور انسان دوست ترقی کے مشترکہ عزم کو بھی نمایاں کیا۔

وزیراعظم نے گزشتہ 80 برسوں پر مشتمل ویتنام کی جدوجہد اور ترقیاتی سفر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ملک نے جنگ اور پابندیوں کے دور سے نکل کر مسلسل اصلاحات کے ذریعے ایک مضبوط معیشت کی بنیاد رکھی ہے۔ انہوں نے تعمیرِ وطن میں تین بنیادی عناصر کا ذکر کیا: عالمی معیشت سے جڑی سوشلسٹ طرز کی مارکیٹ اکانومی، سوشلسٹ جمہوریت اور سوشلسٹ قانون کی حکمرانی۔

اسی طرح انہوں نے تین ترقیاتی اصول بیان کیے: سیاسی و سماجی استحکام، عوام کو ترقی کا مرکز و محرک قرار دینا، اور معاشی ترقی کو سماجی انصاف، بہبود اور ماحول کے تحفظ کے ساتھ ہم آہنگ رکھنا۔

انہوں نے چھ ترجیحی پالیسی شعبوں کی بھی نشاندہی کی جن میں معاشی ترقی کو مرکزی حیثیت، ثقافتی ترقی کو روحانی بنیاد، آزاد و خودمختار خارجہ پالیسی، سماجی تحفظ، قومی دفاع و سلامتی کی مضبوطی اور بدعنوانی کے خلاف موثر حکمت عملی شامل ہیں۔ انہوں نے ویتنام کی "چار ناں” دفاعی پالیسی بھی دہرائی، جن میں فوجی اتحادوں سے دوری، کسی ملک کے خلاف دوسرے ملک کا ساتھ نہ دینا، غیر ملکی فوجی اڈوں کی اجازت نہ دینا اور بین الاقوامی تعلقات میں طاقت کے استعمال یا دھمکی سے گریز شامل ہے۔

وزیراعظم چنھ نے کہا کہ تقریباً 40 سالہ اصلاحاتی پروگرام “Đổi Mới” کے بعد ویتنام ایک جنگ زدہ ملک سے ابھرتی ہوئی عالمی معیشت بن چکا ہے، جو 194 ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان سمیت 14 ممالک کے ساتھ جامع اسٹریٹجک شراکت داری رکھتا ہے۔ 2025 تک ویتنام کی جی ڈی پی 510 ارب ڈالر تک پہنچنے اور فی کس آمدنی 5 ہزار ڈالر سے تجاوز کرنے کی توقع ہے۔

وزیراعظم نے ویتنام–کویت دیرینہ دوستی کا بھی ذکر کیا، یہ بتاتے ہوئے کہ کویت 1976 میں ویتنام سے سفارتی تعلقات قائم کرنے والا پہلا خلیجی ملک تھا۔ کویت نے 1979 کے داؤ تیئنگ آبپاشی منصوبے سمیت متعدد ترجیحی ODA منصوبوں میں اہم تعاون فراہم کیا اور کووڈ-19 کے دوران 6 لاکھ ویکسین کی خوراکیں بھی عطیہ کیں۔

دوطرفہ تجارت 2024 میں 7.3 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے، جب کہ نگہی سون ریفائنری و پیٹروکیمیکل کمپلیکس جیسے سرمایہ کاری منصوبے دوطرفہ شراکت داری کی علامت ہیں۔ تاہم وزیراعظم نے اعتراف کیا کہ اقتصادی تعاون ابھی بھی اپنی حقیقی صلاحیت کے مطابق نہیں اور سیاسی و سفارتی روابط کو مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے بتایا کہ امیر، ولی عہد اور وزیراعظمِ کویت کے ساتھ ملاقاتوں میں دونوں ممالک نے دوطرفہ تعلقات کو باضابطہ اسٹریٹجک شراکت داری تک بلند کرنے اور مستقبل کے لیے نو ترجیحی تعاون کے شعبوں کی نشاندہی پر اتفاق کیا۔

ان میں سیاسی اعتماد اور اعلیٰ سطحی تبادلوں میں اضافہ، قومی دفاع اور سلامتی—بالخصوص سائبر سیکیورٹی—میں تعاون، سائنس، ٹیکنالوجی، اختراع اور ڈیجیٹل تبدیلی میں اشتراک، اور توانائی کے شعبوں میں وسیع تر شراکت داری شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ویتنام–کویت تعلقات اب ایک تاریخی موڑ پر ہیں اور جنوب مشرقی ایشیا اور خلیج کے لیے ایک مثالی تعاون کا نمونہ بننے جا رہے ہیں۔ نئی اسٹریٹجک شراکت داری علاقائی و عالمی امن اور ترقی میں دونوں ممالک کے کردار کو مزید مضبوط کرے گی۔

وزیراعظم چنھ نے کویت ڈپلومیٹک انسٹیٹیوٹ کے کردار کو سراہتے ہوئے اعتماد ظاہر کیا کہ دونوں ممالک کے ڈپلومیٹک اداروں کے درمیان حالیہ مفاہمت نامہ 2026 سے ٹھوس تعاون میں ڈھل جائے گا۔

خطاب کے بعد وزیراعظم چنھ، ان کی اہلیہ اور اعلیٰ سطحی ویتنامی وفد امیر الجزائر سیفی غریب کی دعوت پر الجزائر روانہ ہوگئے۔

رومانیہ Previous post رومانیہ اور اٹلی کے درمیان مضبوط اسٹریٹجک شراکت داری پر تبادلہ خیال
مراکش Next post مراکش کی COP30 میں سمندری تحفظ کے عالمی ایجنڈے کے لیے مضبوط عزم کی تجدید