پاکستان

ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے!!!

مملکت خداداد پاکستان و ریاست جموں وکشمیرکا رشتہ قدرتی طور پر اٹوٹ انگ ہے اور یہ رشتہ اس سلسلے کی کڑی ہے جو ہجرت مدینہ کے بعد حضور آقائے نامدار صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کے درمیان رشتہ مواخات قائم کر کے اس کی ابتداء فرمائی تھی اور تمام مسلمان بلا امتیاز رنگ و نسل اس عظیم رشتے میں ایک زنجیر کی طرح بندھے ہوئے ہیں۔

اسی طرح اہلیان پاکستان اور ریاست جموں و کشمیر بھی اس رشتے میں بندھے ہوئے ہیں اور جس کی تجدید ہر سال 5 فروری کے دن وہ ریاست کو پاکستان سے ملانے والے تمام زمینی راستوں اور دریاؤں پر بنے ہوئے پلوں پر انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنا کر کرتے ہیں اور اس یکجہتی سے دنیا کو یہ باور کرواتے ہیں کہ پاکستانی اور کشمیر ی ایک ہی جسم کے حصے ہیں، وہ باہم یک جان و یک قالب ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت اس تعلق اور رشتے کو نہ تو کمزور کرسکتی ہے اور نہ ہی اسے ختم کرسکتی ہے۔ تقسیم برصغیر کے بعد اصولی طور پر ریاست کے عوام کو بھی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا جمہوری حق ملنا چاہیے تھا لیکن بھارت نے غیر قانونی طور پر ان کے اس جائز اور تسلیم شدہ حق کو غصب کر کے نہ صرف عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی بلکہ وہ گذشتہ77 سالوں سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا بھی مرتکب ہو رہا ہے۔

پاکستان شروع دن سے ہی کشمیریوں کا پشتبان اور مونس و غمخوار رہا ہے اور اس کی پاداش میں پاکستان کو اپنے مشرقی بازو کی علیحدگی کا صدمہ بھی برداشت کرنا پڑا لیکن پاکستان نے کشمیری عوام سے کیے ہوئے اپنے عہد سے کبھی روگردانی نہیں کی اور ہر موقع پران کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑا رہا ہے جس کا فقید المثال مظاہرہ ہرسال 5 فروری کے دن کیا جاتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ سب سے پہلے آل انڈیا مسلم لیگ نے نومبر 1931ء میں سرینگر کے خونیں واقعے کے بعد علامہ محمد اقبال کی سربراہی میں ایک کشمیر کمیٹی قائم کی اور پہلی مرتبہ 1934 ء میں کشمیریوں سے یکجہتی کے لیے ہندوستان بھر میں ہڑتال کی گئی۔

قائد اعظم محمدعلی جناح نے مئی 1946ء میں ریاست کے دورے کے دوران اپنے بصیرت افروز یقین و ایقان کے ساتھ کشمیری قیادت کو باور کروایا کہ کشمیری مسلمانوں کا مستقبل پاکستان کے ساتھ الحاق میں ہی محفوظ رہ سکتا ہے۔انہوں نے یہ بات برملا کہی کہ کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے اور پاکستان کے لیے کشمیر شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ کشمیر کے ساتھ یہی انمٹ و ناقابل تسخیر وابستگی تھی کہ قائد کے آخری وقت بھی ان کی زبان پر کشمیر کے ہی الفاظ تھے۔

قائداعظم کے ساتھ ساتھ مصور پاکستان علامہ محمد اقبال بھی کشمیریوں کے آلام ومصائب پر تڑپتے تھے اور ان کا دل بھی کشمیری قوم کی مظلومیت و کسمپرسی پر پریشان و ملول رہتا تھاجس کا اظہار شیخ عبدللہ نے اپنی تصنیف آتش چنار میں کچھ اس طرح کیا کہ” علامہ اقبال انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی میں جکڑی ہوئی کشمیری قوم پر افسردہ تھے اور ہمدردی کے جذبات کے ساتھ چاہتے تھے کہ کشمیری آزاد ہوں، ترقی کریں اور دنیا بھر میں سرخروہوں”۔

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان اور کشمیر لازم و ملزوم ہیں اور یہ ایسا ناقابل تنسیخ رشتہ ہے کہ جس کو دنیا کی کوئی طاقت جھٹلا نہیں سکتی۔ستمبر 1965ء میں جب بھارت نے پاکستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرنے کے لیے کشمیر میں دراندازی شروع کی تو اس وقت کے پاکستانی وزیرخارجہ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے 22 ستمبر 1965ء کے دن اپنی بھرپور آواز میں سلامتی کونسل کے درودیوار ہلا دیے اور ببانگ دہل پوری دنیا کو باور کروایا کہ ”جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں ہے اور نہ ہی کبھی رہا ہے۔

جموں و کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ جموں و کشمیر کے لوگ خون، گوشت، طرززندگی، ثقافت، جغرافیہ اور تاریخ بلکہ ہر لحاظ سے اور ہر شکل میں پاکستان کے عوام کا حصہ ہیں اور ہم اپنے دفاع کے لیے ایک ہزار سال تک بھی لڑیں گے”۔ اس کے بعد فروری 1975ء میں اس وقت کے وزیراعظم شہید ذوالفقارعلی بھٹو نے شیخ عبداللہ اور اندراگاندھی کے درمیان معاہدے کے موقع پر کشمیریوں کے جذبات کی صحیح ترجمانی کرتے ہوئے پورے پاکستان میں اس کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا تو اس موقع پر پورا پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں کی دلجوئی کے لیے ان کے ساتھ سراپا احتجاج تھا۔

جنوری1990ء میں جب جماعت اسلامی پاکستان کے اس وقت کے امیر قاضی حسین احمد نے کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے منصوبہ بندی کی تو اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد نواز شریف نے بھی اس کی بھرپور تائید کی اور اس کی اہمیت کومزید اجاگر کرنے کے لیے اس وقت کی وزیراعظم پاکستان شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے نہ صرف اس دن کو سرکاری طور پر منانے کا اعلان کیا بلکہ بنفس نفیس آزاد کشمیر کے دارلحکومت مظفرآباد میں آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی سے خطاب کر کے دنیا کو پیغام دیا کہ کشمیری اپنی جدوجہد میں تنہا نہیں ہیں اور پورا پاکستان ان کی مدد و نصرت کے لیے ان کی پشت پر کھڑا ہے۔ پاکستان کشمیریوں کو اپنی جسم کا حصہ سمجھتا ہے اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کی دل وجان سے حمایت کرتاچلا آیا ہے اور پوری دنیا میں کشمیر کا مقدمہ انتہائی مؤثر انداز میں پیش بھی کیا ہے۔

کشمیر تہذیبی، ثقافتی، معاشرتی اور مذہبی لحاظ سے پاکستان کا قدرتی حصہ ہے اور اس بات کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا۔ پاکستان اور کشمیر صدیوں پر محیط قومی، سیاسی، معاشی اور علاقائی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ پاکستان بھارت کے غیر قانونی قبضے اوراس کے مظالم کے خلاف کشمیریوں سے یکجہتی کرکے پوری دنیا میں اس کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرتا رہا ہے۔ قائد حریت کشمیر سید علی شاہ گیلانی کے اس نعرے،
”اسلام کی نسبت سے، اسلام کے تعلق سے اور اسلام کی محبت سے ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہماراہے”، نے بھارت کو پریشان و سراسیمہ کیے رکھا تھا۔ کشمیریوں کی حق خودارادیت کی جدوجہد اسی سے تقویت حاصل کرکے اب اپنے منطقی انجام ”کشمیر بنے گا پاکستان ” کی طرف رواں دواں ہے۔ انشاء اللہ! پوری ریاست جموں وکشمیر آزاد ہو کر پاکستان کا حصہ بنے گی اور قائداعظم محمد علی جناح، علامہ محمد اقبال، سید علی شاہ گیلانی اور مجاہداول سردار محمد عبدالقیوم خان کا خواب حقیقت کا روپ دھارے گا!!! بقول باقی صدیقی!

دشمن کی امیدیں تیری آہوں سے جلیں گی!!!
پھرتیری ہوائیں تیری وادی میں چلیں گی!!!
پھر تیری بہاریں تیرے سائے میں پلیں گی!!!
تاچند! تیرے پاؤں میں اغیار کی زنجیر!!!!
مایوس نہ ہوں تیرے گلستاں کے نظارے!!!
وہ آئے تیرے چرخ کے ٹوٹے ہوئے تارے!!!
وہ تیرے پجاری تیرے وارث تیرے پیارے!!!
ہاتھوں میں لیے وقت کی چلتی ہوئی شمشیر!!!
اے وادی کشمیر!!! اے وادی کشمیر!!!

پولیو Previous post وزیر اعظم شہباز شریف کا عزم: پاکستان سے پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے ہر ممکن اقدام کریں گے
ہنوئی Next post ہنوئی کی معیشت کے لیے بلند ترقیاتی اہداف، 2025 اور 2026-2030 کے لیے جامع حکمت عملی کا اعلان