
پانی کو ہتھیار بنانا: بھارت کا امن کے ساتھ خطرناک کھیل
کتنی دانائی سے کہا گیا ہے کہ اگر آپ کو اچھا ہمسایہ نصیب ہو جائے تو زندگی آسان اور پرامن ہو جاتی ہے۔ یہ سنہری اصول نہ صرف افراد بلکہ اقوام کے لیے بھی یکساں طور پر سچ ہے۔ وہ ممالک جو اپنے ہمسایوں کے ساتھ دوستانہ اور خوشگوار تعلقات رکھتے ہیں، مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن رہتے ہیں، اپنے شہریوں کی خوشحالی اور اپنی حکومتوں کے استحکام کو یقینی بناتے ہیں۔ اس کے برعکس، جب ہمسائے مخاصمانہ یا غیرتعاون پر مبنی رویہ اپنائیں، تو نہ امن قائم رہتا ہے نہ ترقی ممکن ہوتی ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کو اس حوالے سے خوش نصیبی حاصل نہ ہو سکی۔ 1947 میں قیام پاکستان کے بعد سے، اسے مشرقی ہمسائے بھارت کے ساتھ ایک کشیدہ اور تصادم پر مبنی تعلقات کا سامنا رہا ہے—ایک ایسا ملک جو آج تک پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کر سکا۔
1948سے لے کر آج تک، سرحد پار سے دشمنی کی ہوائیں چلتی رہی ہیں۔ بھارت کا رویہ مسلسل جارحانہ، چالاک، اور تخریب کار رہا ہے، جو خطے میں دیرپا امن کے کسی بھی امکان کو سبوتاژ کرتا رہا ہے۔ پاکستان کی امن اور علاقائی تعاون کی بارہا کوششوں کے باوجود، بھارت نے ہمیشہ منفی ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کی ان کی کوششیں عسکری تصادمات سے لے کر ہائبرڈ وار، پروپیگنڈا مہمات، اور معاشی تخریب کاری تک پھیلی ہوئی ہیں۔ لیکن ہر بار، اللہ کے فضل اور ہماری قوم اور افواج کی ثابت قدمی سے، پاکستان نے ان سازشوں کو ناکام بنایا۔
حال ہی میں، بھارت نے ایک اور ناقص منصوبہ بندی پر مبنی ڈرامہ رچایا تاکہ پاکستان کو بدنام کیا جا سکے۔ اگرچہ بھارتی سینما کو عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہے، لیکن پاکستان کے بارے میں بنائی گئی ان کی فرضی کہانیاں عالمی سطح پر ناکام رہتی ہیں۔ یہ تعصّب اور تحریف سے بھرپور بیانیے صرف اندرونِ ملک سیاسی فائدے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، لیکن عالمی برادری ان دھوکے باز کہانیوں کو اب پہچاننے لگی ہے۔ بالا کوٹ کا مشہور واقعہ اور بھارتی فضائیہ کے پائلٹ ابھینندن ورتھمان کی گرفتاری اس کی ایک نمایاں مثال ہے، جہاں بھارت کی جارحانہ حکمت عملی کا پاکستان نے پُرعزم مگر بالغ نظری سے جواب دیا۔ ابھینندن کی جلد رہائی، بین الاقوامی انسانی حقوق کے اصولوں کے مطابق، دنیا کو یہ پیغام دینے کے لیے کافی تھی کہ پاکستان زیادہ ذمہ دار اور پرامن ملک ہے۔
اب بھارت نے ایک اور خطرناک اور طویل المیعاد ہتھکنڈے کی طرف رخ کیا ہے: یعنی سندھ طاس معاہدے کی معطلی یا اس میں چھیڑ چھاڑ۔ یہ معاہدہ 1960 میں عالمی بینک کی ثالثی سے طے پایا، اور جنوبی ایشیا میں پانی اور امن کی سلامتی کا ستون سمجھا جاتا ہے۔ یہ صرف دو طرفہ معاہدہ نہیں، بلکہ ایک ایسا ماڈل ہے جس نے تین جنگوں کے باوجود اپنا وجود قائم رکھا۔ اس معاہدے کے تحت بھارت کو مشرقی دریاؤں—راوی، بیاس، اور ستلج—کا حق ملا، جبکہ پاکستان کو مغربی دریاؤں—سندھ، جہلم، اور چناب—کا پانی دیا گیا، جو کہ پاکستان کی زرعی معیشت کی شہ رگ ہیں۔
عالمی بینک کی اہمیت اس میں ہے کہ وہ ایک ضامن اور غیرجانبدار ثالث کی حیثیت رکھتا ہے، جو دونوں ممالک کو معاہدے کی پابندی پر مجبور کرتا ہے۔ یہ ادارہ تنازعات کے حل کے لیے غیرجانبدار ماہرین کی تقرری اور ثالثی کے پینلز جیسے طریقے بھی مہیا کرتا ہے۔ معاہدے کی ساٹھ سالہ کامیابی کا راز اسی مضبوط نظام میں چھپا ہے۔ تاہم، بھارت کی حالیہ یکطرفہ اقدامات اور مغربی دریاؤں کے پانی کو روکنے یا کم کرنے کی دھمکیاں نہ صرف اس معاہدے کی خلاف ورزی ہیں بلکہ عالمی بینک کی حیثیت اور ساکھ کو بھی چیلنج کر رہی ہیں۔ یہ عمل “پانی کی دہشت گردی” اور ماحولیاتی جارحیت کے زمرے میں آتا ہے، جو عالمی سطح پر پانی سے متعلق سیاست میں خطرناک رجحان قائم کر سکتا ہے۔
یہ عمل بلاشبہ پانی کی دہشت گردی ہے، ایک خطرناک قدم جو پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر سکتا ہے۔ پاکستان کی معیشت زیادہ تر زراعت پر مبنی ہے، جو جی ڈی پی کا تقریباً 23 فیصد حصہ اور تقریباً 38 فیصد افرادی قوت کو روزگار فراہم کرتی ہے۔ ہماری زرعی سرگرمیوں کا 90 فیصد سے زائد انحصار دریا کے پانی پر ہے۔ اگر یہ شہ رگ روکی گئی، تو پاکستان کی خوراک کی سلامتی، روزگار اور معیشت کو تباہ کن نتائج کا سامنا ہو گا۔ ایک زرعی ملک اپنے پانی کے وسائل کو دشمن ملک کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتا۔ یہ صرف دو ممالک کا معاملہ نہیں بلکہ انسانی حقوق اور ماحولیات کا سنگین مسئلہ ہے، جس کے اثرات پورے خطے پر مرتب ہو سکتے ہیں۔
پاکستان کو چوکس اور پرعزم رہنا ہو گا۔ ہمیں ہر سفارتی پلیٹ فارم پر اس مسئلے کو اجاگر کرنا چاہیے، خاص طور پر عالمی بینک، اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کے سامنے بھارت کی خلاف ورزیوں کو مؤثر طریقے سے پیش کرنا ہو گا۔ عالمی بینک کو بھی چاہیے کہ وہ غیرجانبدار اور فعال کردار ادا کرے تاکہ مزید بگاڑ کو روکا جا سکے۔ اس نازک وقت میں خاموشی یا بے عملی نہ صرف اس معاہدے بلکہ عالمی اعتماد کو بھی نقصان پہنچائے گی، اور جارح ممالک کو قدرتی وسائل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی شہ دے گی۔
یہ واضح ہونا چاہیے کہ سندھ طاس معاہدے کو سبوتاژ کرنا صرف پاکستان پر حملہ نہیں بلکہ بین الاقوامی قانون اور عالمی تنازعات کے حل کے اخلاقی نظام پر بھی حملہ ہے۔ پانی کوئی ہتھیار نہیں، یہ ایک مشترکہ وسیلہ، زندگی کی بنیادی ضرورت اور مقدس امانت ہے۔ اگر اس کو زبردستی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا، تو پاکستان کو مجبوراََ ایسے انداز میں جواب دینا پڑے گا جو بھارت کی سمجھ میں آ سکے—یہ اقدام جارحیت کے جذبے سے نہیں، بلکہ بقا کی مجبوری کے تحت ہو گا۔
ہم ٹکراؤ کے خواہشمند نہیں۔ پاکستان ہمیشہ سے علاقائی امن، مذاکرات، اور معاشی تعاون کا حامی رہا ہے۔ لیکن امن عزتِ نفس یا بقا کی قیمت پر ممکن نہیں۔ بھارت کو سمجھنا چاہیے کہ دھونس سے عزت نہیں ملتی، اور جارحیت سے استحکام حاصل نہیں ہوتا۔ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کا راستہ تعاون میں ہے، جبر میں نہیں؛ وعدوں کی پاسداری میں ہے، وعدہ خلافی میں نہیں۔
سندھ طاس معاہدہ ایک پرامن بقائے باہمی کی امید کی علامت بنا رہنا چاہیے۔ لیکن اگر ایک فریق اصرار کرے کہ وہ اس چراغ کو بجھا دے، تو اس کے نتائج صرف دریا کے کناروں تک محدود نہیں رہیں گے۔