
جب ہمدردی براعظموں کو عبور کرتی ہے
ایک ایسی دنیا میں جو نسل، مذہب اور قومیت کی لکیروں سے دن بہ دن زیادہ منقسم ہوتی جا رہی ہے، کچھ ایسی روحیں بھی ہیں جو ان دیواروں سے بلند ہو کر ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ انسانیت سب سے اعلیٰ درجہ ہے۔ ہمدردی نہ کسی پاسپورٹ کی محتاج ہے، نہ کسی سرحد کی، نہ کسی عقیدے کی — یہ دل کی ایک عالمی زبان ہے۔ کچھ افراد کی زندگی اس سچائی کی جیتی جاگتی گواہی بن جاتی ہے۔ مرحوم عبدالستار ایدھی، جن کا نام دنیا بھر میں احترام سے لیا جاتا ہے، اُنہوں نے نہ صرف دوسروں کے لیے جینا چُنا، بلکہ اُن کی خاطر سانس لینا اپنا مقصد بنا لیا۔ اُن کا ورثہ صرف یاد نہیں کیا جاتا، بلکہ وہ آج بھی ان گنت دلوں کو متاثر کرتا ہے جو دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے خود کو وقف کیے ہوئے ہیں۔
ان لوگوں میں جو ایدھی کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں — اگرچہ پاکستان سے سمندروں کے فاصلے پر — ایک ایسا شخص بھی ہے جس کی کہانی سنائے جانے کے قابل ہے۔ ہارون نور محمد ، جو 1948 میں جنوبی افریقہ کے شہر پریٹوریا میں پیدا ہوئے، اس بات کی زندہ مثال ہیں کہ انسانیت سے محبت اور اپنی جڑوں سے وابستگی وقت اور جغرافیے کی حدود سے بلند ہو سکتی ہے۔ اگرچہ وہ افریقی سرزمین پر پیدا ہوئے، ان کا دل ہمیشہ پاکستان کے لوگوں کے ساتھ ہم آہنگ دھڑکتا رہا — اُس سرزمین کے ساتھ جہاں انہوں نے اپنی ابتدائی زندگی کے قیمتی سال گزارے۔ نسلی امتیاز پر مبنی جنوبی افریقہ کے ظالمانہ نظام، اپارتھائیڈ، کے باعث ہارون 1963 میں تعلیم کی غرض سے پاکستان آئے۔ یہاں انہوں نے نہ صرف علم حاصل کیا بلکہ پاکستان اور اس کے عوام سے ایک گہرا اور دیرپا تعلق بھی قائم کیا۔
1973 سے 1976 تک ہارون نور محمد نے کراچی کے انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشنمیں تعلیم حاصل کی، جہاں سے انہوں نے بزنس میں آنرز ڈگری اور پھر ایم بی اے مکمل کیا۔ تعلیم مکمل ہونے کے بعد وہ جنوبی افریقہ واپس لوٹے، مگر وہاں ان کے لیے مواقع کے دروازے بند ملے — اپارتھائیڈ کے ظالمانہ نظام نے ان دروازوں کو سختی سے بند کر رکھا تھا۔ اُن کی قابلیت کے باوجود، اُن کی جلد کا رنگ اُن کی قسمت کا فیصلہ کرنے لگا۔ اُنہیں اُن پیشہ ورانہ شعبوں میں کام کرنے کی اجازت نہ ملی جن کے دروازے ان کی تعلیم نے ان کے لیے کھولے تھے۔ لیکن اس محرومی نے ان کے حوصلے کو ماند نہیں کیا۔ بلکہ اس نے اُن کے دل میں خدمت کا جذبہ اور بھی زیادہ مضبوط کر دیا۔
ہارون نور محمد نے پاکستان سے اپنا تعلق مختلف انداز میں دوبارہ استوار کیا۔ 2001 میں، جب محترمہ بے نظیر بھٹو جلاوطنی کے ایّام گزار رہی تھیں، تو اُنہوں نے پریٹوریا میں ہارون نور محمد کی رہائش گاہ پر قیام کیا۔ وہ دن، جو خاندان اور دوستی کی گرمجوشی میں گزرا، آج بھی اُن کی یادداشت میں نقش ہے — ایک ایسی یاد جسے وہ اپنے دل سے لگائے رکھتے ہیں۔ 2005 اور پھر 2010 میں، جب پاکستان زلزلوں اور تباہ کن سیلابوں سے دوچار ہوا، تو ہارون نور محمد نے صرف ہمدردی کے الفاظ پر اکتفا نہ کیا؛ بلکہ جنوبی افریقہ سے وسائل کو متحرک کیا اور عبدالستار ایدھی کے ساتھ مل کر متاثرین کی امداد میں بھرپور حصہ لیا۔ وہ ایدھی کو انسانیت کے لیے خدا کا ایک انمول تحفہ سمجھتے ہیں اور خود کو اُن کے ساتھ کام کرنے والا ایک خوش نصیب انسان تصور کرتے ہیں۔
ہارون نور محمد کی کاوشیں نظرانداز نہیں کی گئیں۔ اپریل 2025 میں انہیں پاکستان مدعو کیا گیا اور پشاور میں اُنہیں اُن کی عمر بھر کی انسانی خدمت اور پاکستان و جنوبی افریقہ کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے پر گورنر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ایک ایسی دنیا میں جو اس قسم کی مثالوں کی پیاسی ہے، اُن کی زندگی امید کا ایک روشن چراغ ہے۔ 1994 سے اب تک وہ جنوبی افریقہ میں تعینات ہر پاکستانی سفیر کی میزبانی اپنے گھر پر کر چکے ہیں، جس نے اُن کے گھر کو سفارتکاری، مہمان نوازی اور تعلقات کا ایک مرکز بنا دیا ہے۔ اُن کی کئی خوبصورت یادوں میں ایک یاد جنید جمشید کے ساتھ اُن کی ملاقات کی بھی ہے، جو جنوبی افریقہ کے دورے پر آئے تھے — ایک ایسی دوستی جو کئی دیگر تعلقات کی طرح آج بھی اُن کے دل اور کہانیوں میں زندہ ہے۔
ہارون نور محمد کی کہانی کو مزید مؤثر اور دل کو چھو لینے والا بنانے والی بات یہ ہے کہ اُن کی پاکستان سے محبت کسی سیاسی مفاد یا شناختی سیاست پر مبنی نہیں ہے۔ اُن کا خاندان 1947 کی تقسیم سے قبل ہی بھارت سے جنوبی افریقہ ہجرت کر چکا تھا۔ اس کے باوجود، پاکستان کی سرزمین، اس کے لوگ، اور وہ دن جو انہوں نے یہاں گزارے، ان کے دل و جان پر ایک ناقابلِ مٹ اثر چھوڑ گئے۔ انہوں نے پاکستان میں صرف تعلیم حاصل نہیں کی، بلکہ اس کی ثقافت کو جذب کیا، عمر بھر کے رشتے بنائے، اور اس کے اقدار کو اپنے وجود کا حصہ بنا لیا۔ پاکستان ان کے لیے صرف نقشے پر ایک ملک نہیں، بلکہ ان کے وجود کا حصہ ہے۔
اُن کی زندگی کی کہانی صبر، محبت اور انسانوں کی بھلائی پر غیر متزلزل ایمان کا حسین امتزاج ہے۔ اُن کی خدمات کو اب پاکستان کے معزز ترین صدارتی ایوارڈ کے لیے زیرِ غور لایا جا رہا ہے — ایک ایسا اعزاز جو اُس شخص کا حق ہے جس نے کبھی خدمت سے منہ نہیں موڑا، کبھی محبت سے پیچھے نہیں ہٹا، اور کبھی انسانیت کی بے پایاں طاقت پر یقین کھونے نہیں دیا۔ ایک ایسے دور میں جب دنیا مزید بکھرتی محسوس ہوتی ہے، ہارون نور محمد ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہم میں سب سے بہتر وہ ہیں جو صرف اپنے لیے نہیں، بلکہ دوسروں کے لیے جیتے ہیں — سمندروں کے پار، رکاوٹوں کے پار، اور وقت کی حدوں سے بھی آگے۔