سمے کا دھارا

“سمے کا دھارا” از یوسف خالد

یوسف خالد کا نثری نظموں کا مجموعہ “سمے کا دھارا” اردو ادب میں نثری نظم کے اسلوب میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ کتاب شاعر کی گہری فلسفیانہ بصیرت، لطیف احساسات اور زبان پر مکمل عبور کا مظہر ہے۔ یوسف خالد نے اس مجموعے میں وقت، انسان کی داخلی کیفیات، حقیقت و فریب، اور خودی کے پیچیدہ موضوعات کو ایک نیا زاویہ دے کر پیش کیا ہے۔

سمے کا دھارا کی نظمیں ایک خاص نوعیت کی فکری گہرائی، جذباتی شدت اور وقت کی حقیقتوں کو نثری اسلوب میں پیش کرتی ہیں۔ یوسف خالد نے نثری نظم کے ذریعے روزمرہ زندگی کی پیچیدگیوں، اندرونی کشمکش اور وجود کی معنویت کو نہایت خوبی سے بیان کیا ہے۔ ان کی نظمیں ایک نیا منظر نامہ پیش کرتی ہیں جہاں خواب اور حقیقت کی سرحدیں مٹ جاتی ہیں، اور زندگی کے تمام لمحے ایک دھارے کی طرح بہتے رہتے ہیں۔مثال کے طور پر ایک نظم “کہانی” کو  ہی لے لیجئے۔اس نظم میں یوسف خالد نے لمحوں کی ایک طویل قطار کی صورت میں زندگی کو پیش کیا ہے، جہاں ہر لمحہ ایک کردار کی طرح سفر کرتا ہے، کبھی شوخ ملبوسات میں، کبھی دریدہ پیرہن کے ساتھ، اور پھر منظر سے غائب ہو جاتا ہے۔ شاعر نے زندگی کے مسلسل تغیرات اور اس کے مختلف پہلوؤں کو ایک نیا رنگ دیا ہے:

“لمحے سانس کی نحیف انگلی پکڑ کر ایک موہوم سی پگڈنڈی پر سفر آغاز کرتے ہیں، پگڈنڈی پر ننھے قدموں کے نشان ابھرنے لگتے ہیں، لمحوں کی اچھل کود شروع ہو جاتی ہے۔”(۱)

یہ اقتباس وقت کی رواں دواں حقیقت اور انسان کی اندرونی جستجو کو  بڑی خوبصورتی سے بیان کرتا ہے۔

ایک اور نظم”بے چہرگی”   کو دیکھئے۔اس نظم میں خاموشی اور بے چہرگی کی حالت کو ایک گہری بصیرت سے پیش کیا گیا ہے۔ شاعر نے زندگی کی مختلف کیفیات کو محسوس کیا ہے، جیسے وہ خاموشی کے باوجود گہرے اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ اس میں خاموشی کا تصور مروجہ خیالات سے ہٹ کر ایک فلسفیانہ زاویہ رکھتا ہے:

“خامشی بےچہرگی اوڑھے ایک فاصلے پر کھڑی مجھے دیکھ رہی ہے، میں کہ رنگوں، خوشبوؤں اور آوازوں کی تجسیم کرنے میں مگن ہوں۔”(۲)

یہ اقتباس زندگی کی ظاہری شے سے زیادہ اس کے باطنی پہلو کو اجاگر کرتا ہے، جہاں انسانی جذبات اور فکر کے درمیان ایک تعلق نظر آتا ہے۔

نظم”آمادگی” دیکھئے۔یہاں یوسف خالد نے اپنی ذات کے اندر کی پیچیدگیوں اور اضطراب کو بیان کیا ہے۔ اس نظم میں خود شناسی کی جستجو اور اس کی تکمیل کے لیے شاعر کی داخلی تلاش کی کہانی ہے:

“میں اپنے اندر کی گھٹن سے بیزار ہو رہی ہوں، میری ذات ریزہ ریزہ ہو کر بکھر رہی ہے، میں مجتمع ہونا چاہتی ہوں، خود کو مکمل حالت میں دیکھنا چاہتی ہوں۔”(۳)

اس اقتباس میں شاعر نے اپنے اندر کی بے چینی اور تکمیل کی آرزو کو ایک دلکش انداز میں بیان کیا ہے۔

نظم”آواز اور روشنی”  میں آواز اور روشنی کو دو متضاد لیکن ہم آہنگ عناصر کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یہ زندگی کے امکانات اور ان کی جستجو کی علامت ہیں، جہاں روشنی وسعت کی طلبگار ہے اور آواز رکاوٹوں کو توڑنے کا عزم رکھتی ہے:

“آواز اور روشنی یہ قائم رہیں تو امکانات کے در وا رہتے ہیں، روشنی وسعتوں کی طلب گار اور وسعت آشنا ہوتی ہے، جب کہ آواز وسعتوں کے دوش پر سوار ہوتی ہے اور کسی رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لاتی۔”(۴)

یہ اقتباس انسان کی جستجو اور امکانات کی طرف مسلسل بڑھتے قدموں کی نمائندگی کرتا ہے۔

نظم”جست” زندگی کی مسلسل جستجو اور اس کے مستقل تغیرات کو بیان کرتی ہے۔ مسافر اپنے خوابوں اور خواہشات کے ساتھ آگے بڑھتا رہتا ہے، حالانکہ اس کی راہ میں مختلف مشکلات آتی ہیں۔ لیکن ہر مشکل کے بعد، ایک نئی امید اور روشنی کا ظہور ہوتا ہے:

“زندگی لمحوں کے رتھ پر سوار ہے، آنکھوں کو خیرہ کرتے مناظر، حیرتوں کے لامتناہی سلسلے، زندگی بھر کرنے والے خواب کو موسموں کے تغیرات اور ہر پل تاریخ کے اوراق میں گم ہوتی داستانوں کے کردار۔”(۵)

یہاں شاعر نے زندگی کی بے شمار امکانات اور چیلنجز کو اس قدر گہرا اور محسوس طریقے سے بیان کیا ہے کہ ہر لمحہ ایک نئی جستجو کے مترادف بن جاتا ہے۔

یوسف خالد کی نثری نظموں میں زبان کی ساخت اور تصوراتی دنیا کی تخلیق کی مہارت واضح ہے۔ ان کی نظموں میں استعارے اور علامتوں کا استعمال بار بار سامنے آتا ہے، جو ان کے پیغامات کو ایک نئی گہرائی اور حقیقت فراہم کرتا ہے۔ ان کے کلمات نہ صرف ان کی شعوری فکر کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ ان کے جذباتی اور داخلی تجربات کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔

سمے کا دھارا یوسف خالد کا ایک اہم ادبی کام ہے جس میں نثری نظم کے اسلوب کو بے مثال خوبیوں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ انہوں نے اپنے اشعار میں وقت، خواب، حقیقت، اور انسان کی داخلی جستجو کو پیش کیا ہے۔ ہر نظم میں وہ ایک نئی حقیقت کو دریافت کرتے ہیں اور قاری کو ایک نئے زاویے سے زندگی کے بارے میں سوچنے کی دعوت دیتے ہیں۔ یہ مجموعہ نہ صرف نثری نظم کے قارئین کے لیے بلکہ ہر اس شخص کے لیے اہمیت رکھتا ہے جو زندگی کی گہرائیوں میں غوطہ لگانا چاہتا ہے۔

حوالہ جات

۱-یوسف خالد، پروفیسر،سمے کا دھارا،مثال پبلشرز،فیصل آباد،جنوری ۲۰۲۲،ص۱۰۶۔

۲-ایضا،ص۱۰۹۔

۳- ایضا،ص۱۱۵۔

۴- ایضا،ص۱۱۴۔

۵-ایضا،ص۱۱۹۔

چین Previous post چین کی قومی عوامی کانگریس کے چیئرمین کی گریناڈا کے وزیر اعظم سے ملاقات
ازبکستان Next post ازبکستان اور متحدہ عرب امارات نے تعاون کے مضبوط پل استوار کیے