یاد ہے قربانی کا دنبہ، مگر بھول گئے ہم وہ مکالمہ

یاد ہے قربانی کا دنبہ، مگر بھول گئے ہم وہ مکالمہ

حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی اصل روح محض جانور کے ذبح کرنے کے عمل میں نہیں بلکہ روحانی اطاعت، اخلاقی جرات، اور اللہ کی رضا میں مکمل سرتسلیم خم ہونے میں پوشیدہ ہے۔ اصل فلسفہ اُس مکالمے میں ہے جو ایک باپ اور بیٹے کے درمیان ہوا۔ قرآن مجید سورہ الصافات میں اس مکالمے کو نہایت خوبصورتی سے بیان کرتا ہے:

“پھر جب وہ (اسماعیل) ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کے قابل ہو گیا، تو (ابراہیم نے) کہا: اے میرے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، سو دیکھو تمہاری کیا رائے ہے؟ اس نے کہا: اے ابا جان! آپ وہی کیجیے جو آپ کو حکم دیا گیا ہے۔ ان شاءاللہ آپ مجھے صابروں میں پائیں گے۔” (سورۃ الصافات 102:37)

یہ مکالمہ محض ماضی کی ایک کہانی نہیں، بلکہ ایک لازوال سبق ہے۔ اطاعت، ضبطِ نفس اور ایمان کی فتح کی ایک روشن مثال۔ دنبہ، جو اللہ کی طرف سے حضرت اسماعیلؑ کی جگہ بطور فدیہ عطا کیا گیا، ایک علامت بن گیا۔ مگر ہم اکثر اصل سبق، اصل روح کو بھول جاتے ہیں — یعنی وہ مکالمہ، وہ روحانی سرتسلیم۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے اپنے سب سے عزیز کو اللہ کے حکم پر قربان کر دینا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا اس پر آمادگی کے ساتھ راضی ہو جانا ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اصل قربانی اپنی خواہشات، اپنی انا، اور اپنی پسند کی اطاعت کو اللہ کی رضا کے تابع کرنا ہے۔ ہم نے دنبے کو یاد رکھا، مگر مکالمہ کو بھلا دیا، جو کہ اصل روحِ قربانی تھا۔

آج جب کہ امتِ مسلمہ اور بالخصوص پاکستان، سیاسی عدم استحکام، معاشی زوال، اخلاقی انحطاط اور سماجی ٹوٹ پھوٹ جیسے بحرانوں کا شکار ہے، تو ضروری ہے کہ ہم اپنے انفرادی اور اجتماعی رویوں میں قربانی کے حقیقی فلسفے کو زندہ کریں۔ ہمارا معاشرہ بدعنوانی، ناانصافی، عدم برداشت اور لالچ سے بوجھل ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی ہمیں صرف جانور ذبح کرنے کا پیغام نہیں دیتی، بلکہ انا، ناجائز خواہشات، اور طاقت و دولت کی ہوس کو ذبح کرنے کا درس دیتی ہے۔

قرآن مجید فرماتا ہے:

  بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے۔ (سورۃ الرعد 11:13)

یہ آیت ہمارے موجودہ حالات سے براہِ راست مطابقت رکھتی ہے۔ اگر پاکستان نے اپنی کھوئی ہوئی عزت اور وقار کو پانا ہے تو اندرونی پاکیزگی ضروری ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو اپنی ذاتی خواہشات کو اجتماعی فلاح پر قربان کرنا ہوگا۔ ہمارے شہریوں کو بے ایمانی، رشوت، ٹیکس چوری، اور قومی وسائل کے غلط استعمال کو ترک کرنا ہوگا۔ ہر فرد کو سوچنا ہوگا کہ وہ اجتماعی بہتری کے لیے کیا قربانی دے سکتا ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے بیٹے کی قربانی کا حکم اس لیے نہیں دیا گیا کہ انہیں تکلیف دی جائے، بلکہ یہ ان کی مکمل اطاعت اور روحانی پختگی کا امتحان تھا۔ آج پاکستان بھی آزمائش کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ ہمیں خود سے پوچھنا ہوگا — ہم اللہ کی رضا کے لیے، اور اپنی قوم کی درست سمت میں بحالی کے لیے کیا قربان کرنے کو تیار ہیں؟ کیا ہم فرقہ واریت کو اتحاد کے لیے چھوڑ سکتے ہیں؟ کیا ہم نفرت انگیز تقاریر اور انتہا پسندی کو امن کے لیے ترک کر سکتے ہیں؟ کیا ہم ناجائز کمائی کو عدل پر مبنی معیشت کے لیے چھوڑ سکتے ہیں؟

نبی کریم ﷺ نے فرمایا :

یقیناً جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے، اگر وہ درست ہو جائے تو سارا جسم درست ہو جاتا ہے، اور اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ وہ ٹکڑا دل ہے۔ (صحیح بخاری و مسلم)

دل کی اصلاح نہایت اہم ہے۔ لالچ، حسد، تکبر جیسے روحانی امراض کو ختم کرنا ہوگا۔ ہماری سیاست کو ریاکاری اور خودغرضی سے پاک کرنا ہوگا۔ ہماری معیشت کو سود اور استحصال سے نجات دینی ہوگی۔ اور ہماری تعلیم میں ایسی اقدار شامل کرنا ہوں گی جو ذمہ داری، سچائی اور خدمتِ خلق سکھائیں۔

اگر ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ اندھی اطاعت نہیں تھی۔ یہ خواب، مشورہ، فہم، اور پھر مکمل اطاعت پر مبنی تھا۔ اسی طرح پاکستان کو بھی کوئی قدم بغیر ویژن، مشاورت، اور اخلاقی بنیاد کے نہیں اٹھانا چاہیے۔ ہماری قربانیاں با مقصد ہونی چاہییں — ایک اعلیٰ مقصد کے لیے، جو اسلامی اصولوں اور قومی مفاد کے مطابق ہو۔

قرآن کہتا ہے:

نہ ان (قربانی کے جانوروں) کا گوشت اللہ تک پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون، بلکہ اللہ تک تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ (سورۃ الحج 37:22)

یہ آیت اس تصور کو ختم کر دیتی ہے کہ قربانی صرف جانور کے ذبح کا نام ہے۔ اصل قربانی تقویٰ — اللہ کا خوف اور شعور ہے۔ پاکستان کو اس تقویٰ کی اشد ضرورت ہے۔ سرکاری افسران دیانتداری سے کام لیں، تاجر انصاف کے اصولوں کو اپنائیں، علما اخلاص اور اتحاد سے رہنمائی کریں، میڈیا سچ پر مبنی رپورٹنگ کرے، اور نوجوان عارضی خواہشات کو ترک کر کے ملک کی تعمیر میں کردار ادا کریں۔

حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کا مکالمہ ہمیں باپ بیٹے کے درمیان اعتماد، تربیت اور روحانی ہم آہنگی کا پیغام دیتا ہے۔ آج جب خاندانی ڈھانچے کمزور ہو رہے ہیں، تو یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اصل طاقت ایمان، بات چیت اور باہمی ذمہ داری میں ہے۔ پاکستانی معاشرے کو خاندان کے ادارے کو پھر سے ایمان، مکالمے، اور ذمہ داری پر قائم کرنا ہوگا۔

ہم کسی بھی شعبے میں ہوں، ہمیں قربانی کا سبق دل سے اپنانا ہوگا۔ بغیر قربانی ہم بکھرے رہیں گے، قربانی کے ساتھ ہم ایک مضبوط قوم بن سکتے ہیں۔ اصل قربانی اپنی کم تر خواہشات کو اعلیٰ مقاصد کے لیے چھوڑ دینا ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارے پاس صلاحیت یا وسائل نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ ہم آرام، تعیش، شارٹ کٹس، اور خودغرضی چھوڑنے کو تیار نہیں۔

اس عید پر، جب امت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کو یاد کرتی ہے، تو پاکستان کو مثال بن کر آگے آنا چاہیے۔ آئیے اُس مکالمے کی روح کو زندہ کریں — سچائی، ایمان اور عزم کے لمحے کو۔ قربانی کے پیغام کو اپنے گھروں، دفاتر، بازاروں اور حکومت تک لے جائیں۔

آئیے ہم صرف دنبے کو نہ یاد رکھیں، بلکہ اُس جذبے کو بھی جس نے قربانی کو ممکن بنایا۔ اس برس ہماری قربانیاں باطن کی بھی ہوں — تکبر کے بجائے عاجزی، دھوکے کے بجائے سچائی، تفرقے کے بجائے اتحاد، مایوسی کے بجائے امید۔

تب ہی ہم اللہ کی مدد کے مستحق بنیں گے، سماجی ہم آہنگی اور قومی تجدید ممکن ہوگی۔ تب ہی ہماری قربانی اللہ کی نظر میں معنی رکھے گی اور اقوام کی تاریخ میں مقام پائے گی۔ تب ہی پاکستان وہ ملک بن سکے گا جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا اور جس کے لیے قائداعظم نے جدوجہد کی — ایک ایسی قوم جو محض خون سے نہیں، بلکہ ایمان، قربانی اور صداقت سے تعمیر ہوئی ہو۔

عالمی یومِ ماحولیات پر صدر آصف علی زرداری کا پاکستان کو صاف اور سبز بنانے کے لیے اتحاد کی اپیل Previous post عالمی یومِ ماحولیات پر صدر آصف علی زرداری کا پاکستان کو صاف اور سبز بنانے کے لیے اتحاد کی اپیل
صدر الہام علییف کی جانب سے عید الاضحیٰ کے پرمسرت موقع پر عوام کو مبارکباد Next post صدر الہام علییف کی جانب سے عید الاضحیٰ کے پرمسرت موقع پر عوام کو مبارکباد