گرین لینڈ کے انتخابات میں کامیابی کے بعد مرکز-دائیں جماعت ڈیموکریٹس کی حکومت سازی کے لیے مشاورت

گرین لینڈ کے انتخابات میں کامیابی کے بعد مرکز-دائیں جماعت ڈیموکریٹس کی حکومت سازی کے لیے مشاورت

گرین لینڈ، یورپ ٹوڈے: گرین لینڈ کے انتخابات میں فتح حاصل کرنے کے ایک روز بعد، مرکز-دائیں جماعت ڈیموکریٹس نے بدھ کے روز ایک اجلاس منعقد کیا تاکہ مخلوط حکومت کے قیام کی حکمت عملی طے کی جا سکے۔ یہ اقدام خودمختار ڈینش علاقے کی آزادی کی راہ ہموار کر سکتا ہے، جس پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی گہری نظر رہی ہے۔

ٹرمپ کے اس وسائل سے مالا مال آرکٹک جزیرے پر کنٹرول حاصل کرنے کے عزائم نے عالمی سطح پر گرین لینڈ کی سیاست کو غیرمعمولی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے.

گرین لینڈ کے تمام سیاسی جماعتیں اور جزیرے کے 57,000 باشندوں کی اکثریت آزادی کی حمایت کرتی ہے، لیکن اس حوالے سے طریقہ کار پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ انتخابات میں کامیاب ہونے والی دو اہم جماعتوں، اپوزیشن ڈیموکریٹس اور قوم پرست نالیراک (Naleraq) پارٹی کے درمیان اس بات پر اختلاف ہے کہ آزادی کا عمل کس رفتار سے آگے بڑھایا جائے۔

انتخابات میں حیران کن طور پر ڈیموکریٹس نے اپنی مقبولیت تین گنا بڑھاتے ہوئے 29.9% ووٹ حاصل کیے۔ ان کا مؤقف ہے کہ گرین لینڈ کو پہلے مالی خودمختاری حاصل کرنی چاہیے اور اس کے بعد ڈنمارک سے علیحدگی اختیار کرنی چاہیے۔

دوسری جانب، نالیراک نے اپنا ووٹ بینک دگنا کرتے ہوئے 24.5% ووٹ حاصل کیے اور وہ جلد از جلد آزادی کے حق میں ہے۔

یہ انتخابات گرین لینڈ میں حکمرانی کرنے والی دو بڑی جماعتوں کے لیے بڑا دھچکا ثابت ہوئے، جن میں بائیں بازو کی جماعت انُوئٹ آتاقدیجت (IA) اور سوشل ڈیموکریٹک سییومُت (Siumut) شامل ہیں۔ یہ جماعتیں 1979 میں جزیرے کو داخلی خودمختاری ملنے کے بعد سے سیاسی میدان پر حاوی تھیں۔

ڈیموکریٹس کی ڈپٹی لیڈر اینا وانگن ہائم (Anna Wangenheim) نے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا کہ ان کی جماعت “ہر پارٹی کے ساتھ بات چیت کرے گی” تاکہ اتحادی حکومت تشکیل دی جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ “ہم نہیں جانتے کہ ہم کس کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں گے، لیکن ہم مستقبل کی پالیسیوں پر بات چیت کے لیے تیار ہیں”۔

بدھ کے روز ڈیموکریٹس کی قیادت نے مذاکرات کی حکمت عملی طے کرنے کے لیے اجلاس منعقد کیا۔

ماہرین کے مطابق، گرین لینڈ کی آزادی کی سمت کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ ڈیموکریٹس کس جماعت کے ساتھ اتحاد کرتی ہے۔ اگر وہ نالیراک کے ساتھ حکومت بناتی ہے، تو اسے آزادی کے ایجنڈے پر زیادہ تیزی سے عمل کرنا ہوگا۔

یونیورسٹی آف کوپن ہیگن کی آرکٹک امور کی ماہر لل راستاد بیجورسٹ (Lill Rastad Bjorst) کا کہنا ہے کہ اگر ڈیموکریٹس نالیراک کے ساتھ حکومت سازی کرتی ہے تو ان پر مسلسل واضح اور ٹھوس آزادی کے منصوبے کی وضاحت کے لیے دباؤ ہوگا۔

نالیراک پارٹی آزادی کے عمل کو چند سالوں میں مکمل کرنے کی خواہاں ہے۔ انتخابی دن، اس کے رہنما پیلی بروبرگ (Pele Broberg) نے کہا کہ گرین لینڈ کی آزادی برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کی طرح تین سال میں ممکن ہو سکتی ہے۔

تاہم، بدھ کے روز نالیراک نے مفاہمت کا عندیہ دیا۔ پارٹی کے نو منتخب رکنِ پارلیمنٹ کونُو فینکر (Kuno Fencker) نے اے ایف پی کو بتایا: “ہم فوری آزادی حاصل نہیں کر سکتے، لیکن ہم اس عمل کا باضابطہ آغاز کرنا چاہتے ہیں”۔

بعض ماہرین اور ووٹرز نے خبردار کیا ہے کہ اگر آزادی کے عمل میں عجلت دکھائی گئی تو یہ ٹرمپ کے عزائم کو تقویت دے سکتا ہے۔

23 سالہ نانا جینسن (Nanna Jensen) نے کہا: “آزادی اہم ہے، لیکن میرے خیال میں یہ ابھی ممکن نہیں، خاص طور پر موجودہ عالمی حالات میں۔ اگر ہم ابھی آزاد ہو گئے تو امریکہ جزیرے پر قبضہ کر لے گا”۔

ڈونلڈ ٹرمپ گرین لینڈ کو حاصل کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کو مسترد نہیں کرتے اور وہ اس معاملے کو امریکی قومی سلامتی سے جوڑتے ہیں، خاص طور پر چین اور روس کی آرکٹک میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کے پیش نظر۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق، ڈیموکریٹس IA کے ساتھ اتحاد کرنے کا بھی انتخاب کر سکتے ہیں، جس صورت میں وہ اپنی ترجیحی پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے اقتصادی ترقی پر توجہ مرکوز رکھ سکتے ہیں۔

گرین لینڈ کی معیشت زیادہ تر ماہی گیری کے شعبے پر منحصر ہے، جو اس کی تقریباً تمام برآمدات پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ، جزیرہ سالانہ 565 ملین امریکی ڈالر کی ڈینش سبسڈی حاصل کرتا ہے، جو اس کے جی ڈی پی کے 20 فیصد کے برابر ہے۔

2009 میں گرین لینڈ سیلف گورنمنٹ ایکٹ کے تحت، جزیرہ خودمختاری کے عمل کا یکطرفہ آغاز کر سکتا ہے۔

ڈیموکریٹس کے رہنما جینس-فریڈریک نیلسن (Jens-Frederik Nielsen) نے انتخابی رات ایک مباحثے میں کہا: “گرین لینڈ کو اتحاد کی ضرورت ہے، اور یہی ہماری مذاکرات کی بنیاد ہوگی”۔

ڈینش انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز کے محقق اولرک پرام گاد (Ulrik Pram Gad) کے مطابق، ڈیموکریٹس اعتدال پسند حکمت عملی اپنائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ چونکہ ووٹرز نے ٹرمپ کے عزائم مسترد کر دیے ہیں، اب نئی حکومت کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ان کی دلچسپی کو اقتصادی تعاون کی طرف موڑنے میں کامیاب ہو۔

متحدہ عرب امارات کا اقوام متحدہ میں خواتین کے تحفظ اور ڈیجیٹل تشدد کے خلاف جدید ماڈل کا اجرا Previous post متحدہ عرب امارات کا اقوام متحدہ میں خواتین کے تحفظ اور ڈیجیٹل تشدد کے خلاف جدید ماڈل کا اجرا
بیلاروسی صدر لوکاشینکو کا سرکاری دورۂ روس، صدر پیوٹن سے کریملن میں اہم ملاقات آج ہوگی Next post بیلاروسی صدر لوکاشینکو کا سرکاری دورۂ روس، صدر پیوٹن سے کریملن میں اہم ملاقات آج ہوگی