
میدان جنگ سے سفارت کاری تک: پاکستان کی منفرد فتح
فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان حالیہ غیر معمولی ملاقات نے عالمی مبصرین، تجزیہ کاروں اور حکومتوں کی بھرپور توجہ حاصل کی ہے۔ یہ محض دو اہم شخصیات کی ایک اعلیٰ سطحی ملاقات نہ تھی، بلکہ ایک تاریخی علامت تھی—پاکستان کو ایک پُرامن، ذمہ دار اور عسکری لحاظ سے قابل ملک کے طور پر تسلیم کرنے کی علامت، اور اس بات کی تصدیق کہ اس کی مسلح افواج دنیا کی بہترین افواج میں شمار ہوتی ہیں۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے جنرل عاصم منیر کو دیا گیا احترام اور اعزاز پاکستان کی بڑھتی ہوئی ساکھ، اس کی اسٹریٹیجک اہمیت اور اخلاقی مقام پر ایک سفارتی مہر تھی۔
یہ ملاقات ہزار پیغامات کا وزن رکھتی تھی۔ اس کا اصل مفہوم یہ تھا کہ دنیا نے تسلیم کر لیا ہے کہ پاکستان کے معاملات میں سنجیدہ اور پیشہ ورانہ عسکری طرزِ عمل کو نہ صرف سراہا جاتا ہے بلکہ اس کی تقلید بھی کی جاتی ہے۔ جنرل منیر، جو پاک فوج کے نظم و ضبط، بہادری اور وقار کی علامت ہیں، دنیا کے سامنے ایک ایسے ملک کی تصویر لے کر آئے جو غصے کے بجائے فہم، جلد بازی کے بجائے تدبر، اور بے قابو انتقام کے بجائے ذمہ داری کو ترجیح دیتا ہے۔ جب بھارت نے حالیہ جارحانہ اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کیا، تب پاکستان نے بالکل اتنی ہی طاقت سے، بالکل مناسب وقت پر جواب دیا—نہ ایک انچ زیادہ، نہ ایک لمحہ کم۔ اس متوازن مگر مضبوط ردِعمل نے نہ صرف بھارت کو حیرت میں ڈال دیا بلکہ ان حلقوں کے لیے بھی ایک پیغام تھا جو نئی دہلی کی جنگجویانہ پالیسیوں کے پسِ پردہ خاموشی سے سرگرم ہیں۔
تاریخی طور پر جنگیں اور عسکری تصادم اکثر اپنی تباہ کاریوں کے لیے یاد رکھے جاتے ہیں، مگر بہت کم مواقع ایسے ہوتے ہیں جہاں تحمل کو تاریخ نے سراہا ہو۔ پاکستان کا جواب، جو انتقام کے بجائے فہم اور تدبر پر مبنی تھا، جدید تاریخ کے ان نادر لمحات میں شامل ہوگا جب ایک قوم، تباہی پھیلانے کی مکمل صلاحیت رکھنے کے باوجود، عقل مندی اور محدود کارروائی کا راستہ چنتی ہے۔ یہ بذاتِ خود ایک اخلاقی اور عسکری فتح تھی۔
اور جیسا کہ قرآن مجید میں سورہ آلِ عمران (3:26) میں فرمایا گیا ہے:
کہو، اے اللہ! بادشاہی کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی عطا کرے، اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے، اور جسے چاہے عزت دے، اور جسے چاہے ذلیل کر دے۔ بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر کو اس عالمی مقام پر جو عزت و توقیر ملی، وہ دراصل اسی الٰہی اصول کی عملی تصویر تھی—عزت انہی کو ملتی ہے جو عزت کے اہل ہوں، اور غرور کرنے والے ذلیل کیے جاتے ہیں۔
اس ملاقات کی گونج مشرقی سرحد پار سب سے زیادہ محسوس کی گئی۔ بھارتی سیاسی اور میڈیا حلقے ایک بے یقینی کی خاموشی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ایک ایسا ملک جو طویل عرصے سے خطے میں بالادستی اور عسکری غلبے کے خواب دیکھتا رہا، اس کے لیے ایک پاکستانی جنرل کو عالمی سطح پر—خصوصاً صدر ٹرمپ جیسے مغربی سیاسی اثر و رسوخ کی علامت سے—عزت و احترام حاصل کرتے دیکھنا ناقابلِ برداشت امر بن گیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی وہ حکمتِ عملی، جو پاکستان دشمنی کے بیانیے پر کھڑی تھی، اب دھیرے دھیرے بکھرنے لگی ہے۔ بھارت کی نام نہاد علاقائی برتری کا افسانہ، جنگ سے نہیں بلکہ سفارت کاری، عالمی قبولیت اور سچائی کے ذریعے بے نقاب ہو گیا ہے۔
یہ ملاقات عالمی طاقت کے بدلتے ہوئے رجحانات کی علامت بھی ہے۔ جنرل منیر کا یہ سفارتی قدم ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب پاکستان نے حال ہی میں چینی دفاعی ساز و سامان کے کامیاب استعمال کا مظاہرہ کیا۔ دنیا کے عسکری تجزیہ کار اس پیش رفت کو بغور دیکھ رہے ہیں۔ سفارت کاری میں جذبات نہیں بلکہ مفادات غالب ہوتے ہیں۔ چین کی دفاعی ٹیکنالوجی کو پاکستان نے جس مہارت سے استعمال کیا، اس نے مشرق و مغرب دونوں کے لیے نئی سوچ کے دروازے کھول دیے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی جنرل منیر سے ملاقات کو اس تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے—ایک نئی اسٹریٹجک صف بندی، روابط کی بحالی، اور اس اعتراف کے طور پر کہ خطے کا مستقبل پاکستان کو نظر انداز کر کے نہیں بلکہ اس کے ساتھ مل کر طے کیا جا سکتا ہے۔
جنوبی ایشیا سے آگے بڑھ کر، اس ملاقات نے عالمی سطح پر امید کی نئی لہریں پیدا کی ہیں۔ جنرل منیر محض ایک قومی عسکری رہنما نہیں بلکہ اب انہیں ایک ایسے مدبر سیاستدان کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جس کا اثر و رسوخ پاکستان کی حدود سے کہیں آگے ہے۔ سفارتی حلقوں میں یہ بات اب سرگوشیوں میں کہی جا رہی ہے کہ ان کا متوازن رویہ اور تدبر ایران و اسرائیل کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ مسئلہ کشمیر—جسے طویل عرصے تک یا تو نظرانداز کیا گیا یا محض دو طرفہ مسئلہ سمجھا گیا—اب ایک بار پھر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے۔ جب پاکستان کی حیثیت ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر ابھر رہی ہے، تو اس مسئلے پر سنجیدہ عالمی ثالثی کا امکان بھی بڑھتا جا رہا ہے۔
دوسری طرف بھارتی میڈیا، جو عموماً شور، غرور اور بڑھکوں سے بھرا ہوتا ہے، اب الجھن، دفاعی رویے اور تضادات کا شکار ہے۔ دہائیوں سے بنایا گیا بیانیہ پاکستان کی خاموش، پُرعزم اور حکمت پر مبنی سفارت کاری کے سامنے بکھر گیا ہے۔
دنیا نے اس لمحے میں، جب صدر ٹرمپ اور جنرل سید عاصم منیر کی ملاقات ہوئی، صرف ایک مصافحہ نہیں دیکھا—بلکہ ایک تبدیلی دیکھی۔ ایک ایسی تبدیلی جو تاثرات، تعلقات اور جنوبی ایشیا کی سیاست کے بیانیے کو نئی شکل دے گئی۔ یہ ایک غیر اعلانیہ مگر پُراثر اعلان تھا کہ پاکستان، جو کبھی علاقائی کشیدگی اور عالمی بداعتمادی کی آنکھ سے دیکھا جاتا تھا، اب ایک قابلِ اعتماد، سنجیدہ اور ناقابلِ نظرانداز عالمی کردار بن چکا ہے۔
یہ ملاقات صرف اپنی علامتی اہمیت کے لیے یاد نہیں رکھی جائے گی، بلکہ ان امکانات کے لیے بھی جو اس نے پیدا کیے—خطے میں امن، متوازن سفارت کاری، اور سچائی کی فتح کے امکانات۔ اس نے مستقبل کی ایک جھلک دکھائی، جہاں پاکستان کی آواز صرف سنی نہیں جاتی، بلکہ عزت کے ساتھ سنی جاتی ہے۔ اور اس باوقار ابھار میں، فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر کی میراث محض عسکری تاریخ میں نہیں، بلکہ عالمی سفارت کاری اور امن کی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے رقم ہو چکی ہے۔