
پاکستان کے مڈل کلاس کی خاموش جدوجہد
مہنگائی نے پاکستان میں ہر طبقے کو متاثر کیا ہے، لیکن اس کا سب سے زیادہ نقصان متوسط طبقے، خاص طور پر سفید پوش ملازمین کو ہوا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ملکی معیشت اور انتظامی ڈھانچے کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جاتے ہیں، لیکن آج شدید مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ ان کی پریشانیوں کو کوئی نہیں سنتا کیونکہ وہ معاشرتی روایات اور اپنی خودداری کے باعث اپنی مشکلات کا اظہار نہیں کر سکتے۔ جہاں روزانہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور اپنی پریشانیوں کا کھل کر اظہار کر سکتے ہیں، وہیں سفید پوش ملازم خاموشی سے سب کچھ سہنے پر مجبور ہیں۔
متوسط طبقے کے لیے، خاص طور پر دفاتر، بینکوں، تعلیمی اداروں اور مختلف سرکاری محکموں میں کام کرنے والے افراد کے لیے، زندگی گزارنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔ مہنگائی کا طوفان ہر چیز کو ان کی پہنچ سے دور لے جا رہا ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء کے نرخ آسمان کو چھو رہے ہیں، بجلی اور گیس کے بل ناقابل برداشت ہو چکے ہیں، اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔ دن رات محنت کے باوجود وہ اپنے سابقہ معیار زندگی کو برقرار رکھنے سے قاصر ہیں۔
سب سے بڑا مسئلہ بچوں کی تعلیم ہے۔ ایک وقت تھا جب معیاری تعلیم متوسط طبقے کے لیے ایک لازمی ضرورت سمجھی جاتی تھی، مگر اب صورتحال یکسر بدل چکی ہے۔ اسکول کی فیسیں، ٹیوشن کے اخراجات، کتابیں اور یونیفارم سب مہنگے ہو چکے ہیں۔ والدین کو مجبوراً اپنے بچوں کو کم فیس والے اسکولوں میں منتقل کرنا پڑ رہا ہے یا پھر دوسرے گھریلو اخراجات میں کمی کرنا پڑ رہی ہے۔ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم سے محروم دیکھنا والدین کے لیے ایک ناقابل برداشت اذیت بن چکا ہے، مگر ان کے پاس اور کوئی چارہ نہیں۔
طبی اخراجات بھی ایک بڑا مسئلہ بن چکے ہیں۔ صحت کی سہولیات اتنی مہنگی ہو چکی ہیں کہ معمولی بیماری کا علاج بھی ایک مہینے کے بجٹ کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ نجی اسپتالوں اور کلینکس کے فیسیں آسمان کو چھو رہی ہیں، جبکہ سرکاری اسپتالوں کی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اکثر لوگ دوائیوں کے بڑھتے ہوئے نرخوں کی وجہ سے خود علاج کرنے پر مجبور ہیں یا بیماری کو نظر انداز کر رہے ہیں، جو ان کی صحت کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
گھر کا کرایہ اور یوٹیلیٹی بلز بھی متوسط طبقے کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔ کئی سفید پوش ملازمین، جو اچھی جگہوں پر ملازمت کرتے ہیں، اپنی تنخواہ کا ایک بڑا حصہ کرایے میں دے دیتے ہیں اور پھر بھی ایک بہتر رہائش کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ بہت سے لوگ اب مہنگائی کے باعث چھوٹے گھروں یا کم سہولتوں والے علاقوں میں منتقل ہونے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ بجلی، گیس، اور پانی کے بل ہر مہینے بڑھتے جا رہے ہیں، جس سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔
کم آمدنی والے افراد کو کسی حد تک حکومت کی جانب سے امداد یا فلاحی اداروں کی مدد مل جاتی ہے، لیکن متوسط طبقہ ان تمام مراعات سے محروم رہتا ہے۔ ان کی تنخواہیں انہیں مالی طور پر مستحکم ظاہر کرتی ہیں، لیکن حقیقت میں وہ مہینے کے آخر میں اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہوتے ہیں۔ عزت نفس اور خودداری کے باعث وہ نہ تو کسی سے مدد مانگ سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی مشکلات کا اظہار کر سکتے ہیں۔
سماجی ذمہ داریاں بھی ان کی مشکلات میں اضافہ کرتی ہیں۔ شادی بیاہ، تقریبات، اور دیگر معاشرتی روایات ایسے اخراجات کا مطالبہ کرتی ہیں جنہیں پورا کرنا ان کے بس سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی قرض لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں، اور پھر اسے چکانے کے لیے مزید مالی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ آج کے دور میں بچت کا تصور تقریباً ختم ہو چکا ہے، اور زیادہ تر سفید پوش افراد اس خوف میں زندگی گزار رہے ہیں کہ کسی ہنگامی صورتحال میں وہ کیا کریں گے۔
مہنگائی کے اس دباؤ نے ان کے ذہنی سکون کو بھی چھین لیا ہے۔ مالی مسائل کے سبب تناؤ اور بے چینی میں اضافہ ہو چکا ہے، جو ان کی ذہنی اور جسمانی صحت کو متاثر کر رہا ہے۔ ملازمت کے عدم تحفظ، خاندان کی توقعات، اور روزمرہ اخراجات پورے کرنے کی جدوجہد نے انہیں ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیا ہے۔ بیشتر لوگ اپنی پریشانیوں کو اپنے قریبی رشتہ داروں اور دوستوں سے بھی چھپانے پر مجبور ہیں، جس سے ان کی مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں۔
ان تمام مشکلات کے باوجود متوسط طبقہ ہمت نہیں ہارتا۔ وہ دن رات محنت کر کے اپنے لیے بہتر مستقبل کی امید رکھتا ہے۔ ان کی خاموش جدوجہد ان کے صبر اور استقامت کی دلیل ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ اس معاشرے کی ناکامی بھی ظاہر کرتی ہے جو ان کی مشکلات کو نظر انداز کر رہا ہے۔ حکومت اور پالیسی سازوں کو اس طبقے کے مسائل کا ادراک کرنا ہوگا اور انہیں سہولتیں فراہم کرنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ مہنگائی پر قابو پانے، تنخواہوں میں اضافے، اور تعلیم و صحت کے شعبے میں مالی امداد فراہم کرنے سے ان کی مشکلات کو کسی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔
متوسط طبقہ ہمیشہ ملکی ترقی اور استحکام میں مرکزی کردار ادا کرتا آیا ہے، لیکن اگر اس کی پریشانیاں بڑھتی رہیں اور اسے نظر انداز کیا جاتا رہا، تو اس کے اثرات پورے ملک پر مرتب ہو سکتے ہیں۔ ایک مایوس اور مالی طور پر کمزور متوسط طبقہ معیشت کی ترقی میں کیسے کردار اداکر سکتا ہے، حالات کے مارے باصلاحیت افراد بیرون ملک جانے پر مجبور ہو رہے ہیں، اور اس کے نتیجے میں معاشرتی بے چینی جنم لے سکتی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ان کے مسائل کو سنجیدگی سے لیا جائے اور ان کے حل کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں، ورنہ ان کی خاموش تکلیف سے ایک بڑا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔