
ہم کہاں کھڑے ہیں؟غزوہ بدر کی روح سےسبق
اسلامی تاریخ کے صفحات میں جنگِ بدر ایک ایسا درخشاں باب ہے جو ایمانِ کامل، ربانی مدد اور حق کی باطل پر فتح کی لازوال علامت ہے۔ اُس دن 313 جاں نثار صحابۂ کرامؓ نے، جو نہ تجربہ کار سپاہی تھے نہ ہی اعلیٰ اسلحہ سے لیس، ایک دوگنی سے بھی زیادہ تعداد والے مسلح دشمن کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ان کے پاس اگر کچھ تھا تو وہ اللہ پر کامل یقین، غیر متزلزل ایمان اور غیبی مدد پر بھروسہ تھا۔ قرآن مجید اس عظیم لمحے کی یاد دلاتا ہے :
یقیناً اللہ نے تمہاری بدر میں مدد کی جب تم کمزور تھے، پس اللہ سے ڈرو تاکہ تم شکر گزار بنو (آلِ عمران: 123)۔
یہ فتح محض عسکری کامیابی نہ تھی، بلکہ روحانی اعلان تھا کہ جب ایمان خالص ہو اور اللہ پر بھروسا کامل، تو دنیا کی کوئی طاقت اہلِ ایمان کو شکست نہیں دے سکتی۔
آج جب ہمارے خطے میں جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں اور ہمارا ہمسایہ بھارت جارحیت پر آمادہ دکھائی دیتا ہے، تو لازم ہے کہ ہم بدر کی روح اور اپنی موجودہ حالت کے درمیان فرق پر غور کریں۔ سوال صرف عسکری طاقت یا سفارتی تیاری کا نہیں، بلکہ اس سے کہیں گہرا اور ذاتی ہے
کیا ہم آج اس روحانی مقام پر کھڑے ہیں جس پر وہ 313 صحابہؓ تھے؟
کیا ہم اس قابل ہیں کہ ہمیں بھی ویسی ہی غیبی مدد ملے؟
کیا ہمارے اندر وہی ایمان کی طاقت سے جنم لینے والا حوصلہ موجود ہے، جو اسلحے سے نہیں بلکہ اللہ پر یقین سے پیدا ہوتا ہے؟
بدقسمتی سے، سچائی کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے باطن میں جھانکیں۔ بحیثیتِ قوم ہمارا ایمان متزلزل ہو چکا ہے۔ ہم نے اللہ پر کامل بھروسا چھوڑ کر انسانوں، طاقتوں، حکمتِ عملیوں اور اتحادوں پر انحصار شروع کر دیا ہے، جن میں رب کی مشیت کا کوئی دخل نہیں۔ انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی میدان تک ہم مادہ پرستی میں گم اور اللہ کے احکامات سے غافل ہو چکے ہیں۔ نافرمانی، اخلاقی زوال اور روحانی بے حسی ہماری روزمرہ زندگی پر چھائی ہوئی ہے۔ قرآن خبردار کرتا ہے
اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا، اس کے لیے تنگ زندگی ہو گی، اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا اٹھائیں گے (طٰہٰ: 124)۔
ہم نے اقدار کو خود پسندی سے، نظم و ضبط کو خواہشات سے، اور اطاعت کو تکبر سے بدل دیا ہے۔
غزوہ بدر کے صحابہؓ کردار کے پیکر تھے—سچے، دیانت دار، عاجز، اور اللہ کے سامنے اپنی ذمہ داریوں کے شعور سے سرشار۔ ان کی اطاعت موسمی یا جزوی نہ تھی، بلکہ مکمل اور غیر مشروط تھی۔ اسی لیے جب وہ میدانِ بدر میں اترے تو آسمانوں سے مدد نازل ہوئی۔
جب تم نے اپنے رب سے مدد مانگی تو اس نے تمہاری دعا قبول کی، کہ میں ایک ہزار فرشتے تمہاری مدد کے لیے بھیجوں گا، جو یکے بعد دیگرے آئیں گے (الانفال: 9)۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا
جنگِ بدر کے دن اللہ نے اہلِ بدر کی طرف دیکھا اور فرمایا: تم جو چاہو کرو، میں نے تمہیں بخش دیا” (صحیح مسلم)۔
یہ ان کا انعام تھا جنہوں نے اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کر دیا۔
تو کیا ہم وہی مدد حاصل کرنے کے امید وار ہیں جب ہم ان پاک نفوس کے کردار کا سایہ بھی نہیں رکھتے؟ قیامت کے دن، جب ہم ربّ العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے، تو ہم کیا جواب دیں گے؟ کون سے اوصاف صحابہؓ کے ہم پیش کریں گے؟ کون سی اطاعت، کون سی قربانی، کون سی اخلاص ہم دعویٰ کر سکتے ہیں؟ ہم خود کو نبی کریم ﷺ کا اُمتی کہتے ہیں، مگر ہمارے اعمال ان کی تعلیمات کے برخلاف ہیں۔ ہمارا معاشرہ، بالا سے نیچے تک، بددیانتی، ناانصافی، غرور اور اخلاقی دیوالیہ پن میں ڈوبا ہوا ہے۔
تاہم، اس تمام تاریکی کے باوجود امید کی کرن باقی ہے۔ اللہ کی رحمت بے پایاں ہے، اور نبی کریم ﷺ کی اُمت سے محبت بے مثال۔ ہم گناہگار ضرور ہیں، مگر رد کیے گئے نہیں۔
کہہ دیجیے: اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو، یقیناً اللہ سب گناہ معاف کر دیتا ہے۔ وہی بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے” (الزمر: 53)۔
ان شاء اللہ، نبی کریم ﷺ ہماری شفاعت فرمائیں گے۔ ان کی محبت ہمیں رسوا نہ ہونے دے گی، اگر ہم سچی توبہ کریں اور اصلاح کی سعی کریں۔
ایک سچے مؤمن کے لیے موت خوف کی چیز نہیں، بلکہ ایک عبوری مرحلہ ہے۔ اگر ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو ہمیں خوف کے بجائے اُس عزم کے ساتھ جواب دینا ہوگا جو شہادت کو نقصان نہیں بلکہ دائمی عزت سمجھتا ہے۔
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہو گئے ہیں، ان کو مردہ نہ کہو، بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں، انہیں رزق دیا جا رہا ہے (آلِ عمران: 169)۔
ہمارا ردِعمل اتنا مضبوط، متحد اور حق پر مبنی ہونا چاہیے کہ وقت کے دھارے میں گونجتا رہے۔ دنیا کو دکھا دو کہ یہ قوم، جو نبی ﷺ کے نام کی وارث ہے، شاید بھٹک گئی ہو، مگر بھولی نہیں۔
جیسا کہ ایک شاعر نے کہا تھا
ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔””
یہ مایوسی کی صدا نہیں، بلکہ خبردار کرنے والا پیغام ہے کہ اگر ہم گرے، تو ایسی مزاحمت کے ساتھ گریں گے کہ دنیا یاد رکھے گی۔
مگر ہمیں اس انجام تک نہیں پہنچنے دینا چاہیے۔
آئیے، نفرت میں نہیں بلکہ ایمان میں اُٹھیں۔
آئیے، اُن لوگوں کے راستے پر لوٹیں جنہوں نے بدر کو فتح کیا—تعداد سے نہیں، بلکہ روح کی پاکیزگی اور ایمان کی طاقت سے۔
بیداری کا وقت آ چکا ہے۔ جنگ شاید باہر ہو، مگر اصل معرکہ اندر ہے۔ اور اگر ہم وہ جیت گئے، تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی۔