
بھارتی جارحیت میں 40 شہری اور 11 فوجی شہید ہو گئے، آئی ایس پی آر
راولپنڈی، یورپ ٹوڈے: بھارتی افواج کی جانب سے آزاد جموں و کشمیر اور پاکستانی سرزمین پر بلااشتعال اور قابلِ مذمت حملوں کے نتیجے میں کم از کم 51 افراد شہید ہوگئے، جن میں 40 عام شہری اور 11 فوجی اہلکار شامل ہیں۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) نے منگل کو جاری بیان میں بھارتی کارروائی کو “سفاکانہ” اور “غیر انسانی” قرار دیا۔
یہ سانحہ 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب اس وقت پیش آیا جب بھارتی افواج نے جان بوجھ کر رہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا، جن میں خواتین، بچے اور بزرگ شامل تھے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق، ان حملوں میں 7 خواتین اور 15 بچوں سمیت 40 شہری شہید ہوئے جبکہ 121 افراد زخمی ہوئے، جن میں 10 خواتین اور 27 بچے شامل ہیں۔
آئی ایس پی آر نے مزید بتایا کہ پاکستان کی مسلح افواج کے 11 جوان مادرِ وطن کا دفاع کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کر گئے، جب کہ 78 اہلکار زخمی ہوئے۔
فوج نے بیان میں کہا کہ “مسلح افواج نے فوری، درست اور نپا تُلا جواب دیا۔” شہید اہلکاروں میں فضائیہ اور بری افواج کے ارکان شامل تھے، جن کے نام درج ذیل ہیں:
نائیک عبدالرحمٰن، لانس نائیک دلور خان، لانس نائیک اکرام اللہ، نائیک وقار خالد، سپاہی محمد عدیل اکبر، سپاہی نثار، اسکواڈرن لیڈر عثمان یوسف، چیف ٹیکنیشن اورنگزیب، سینئر ٹیکنیشن نجیب، کارپورل ٹیکنیشن فاروق، اور سینئر ٹیکنیشن مبشر۔
بیان میں کہا گیا کہ “ان کا عظیم قربانی، جرأت، وابستگی اور غیر متزلزل حب الوطنی کا مظہر ہے جو قومی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔”
آئی ایس پی آر کے مطابق، “پاکستانی عوام اور مسلح افواج شہیدوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کے لیے دعاگو ہیں۔”
بیان کے اختتام پر متنبہ کیا گیا کہ پاکستان کی خودمختاری کو چیلنج کرنے کی کسی بھی کوشش کا “فی الفور، ہمہ گیر اور فیصلہ کن جواب دیا جائے گا، ان شاء اللہ۔”
جنگ بندی اور سفارتی کوششیں
پیر کے روز پاکستان اور بھارت کے سینئر عسکری حکام کے درمیان ہاٹ لائن پر پہلا رابطہ ہوا، جس میں ہفتے کے روز طے پانے والی جنگ بندی پر عمل درآمد پر اتفاق کیا گیا۔ یہ جنگ بندی پانچ روزہ جنگ کے بعد 10 مئی کو نافذ ہوئی، جس کا اعلان پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا اور بعد ازاں وزیراعظم شہباز شریف، نائب وزیراعظم اسحاق ڈار، بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر، اور امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھی اس کی تصدیق کی۔
یہ کشیدگی 22 اپریل کو مقبوضہ پاہلگام، بھارتی زیرِ قبضہ جموں و کشمیر (IIOJK) میں ہونے والے ایک حملے کے بعد شروع ہوئی، جس میں 26 عام شہری ہلاک ہوئے۔ بھارت نے بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر الزام عائد کیا، جسے اسلام آباد نے سختی سے مسترد کر دیا۔
ردعمل میں، بھارت نے واہگہ بارڈر بند کر دیا، ویزے منسوخ کیے، اور سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا — جسے پاکستان نے “جنگی اقدام” قرار دیا۔
عسکری کارروائیاں: “سندور” اور “بنیان المرصوص”
بھارت نے “آپریشن سندور” کے تحت میزائل حملے اور ڈرون دراندازی کا آغاز کیا، جس کے جواب میں پاکستان نے “آپریشن بنیان المرصوص” کا آغاز کیا اور پانچ بھارتی لڑاکا طیارے (جن میں رافیل بھی شامل تھے) مار گرائے، جبکہ اسرائیلی ساختہ 77 ہاروپ ڈرونز کو بھی تباہ کر دیا۔
امریکہ کی قیادت میں سفارتی مداخلت کے بعد دونوں ممالک نے زمین، فضا اور سمندر میں عسکری سرگرمیاں روکنے پر اتفاق کیا۔ تاہم جنگ بندی کے چند گھنٹوں بعد ہی لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف دوبارہ جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئیں۔
پاکستان کا مؤقف
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے وضاحت کی کہ پاکستان نے جنگ بندی کی درخواست نہیں کی، بلکہ یہ بھارت تھا جس نے پاکستان کے جوابی حملوں کے بعد جنگ بندی کی اپیل کی۔ انہوں نے دو جوہری طاقتوں کے درمیان جنگ کو “ناقابلِ تصور” اور “احمقانہ” قرار دیا۔
انہوں نے انٹرنیٹ پر گردش کرنے والی ان خبروں کو بھی جھوٹا قرار دیا جن میں بھارتی پائلٹ کی گرفتاری کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
انہوں نے آپریشن بنیان المرصوص کو بھارتی جارحیت کے خلاف “قومی سطح پر متحد ردعمل” قرار دیا اور کہا کہ پاکستان نے اپنے وعدے کے مطابق مؤثر، مناسب اور فیصلہ کن ردعمل دیا۔
اتوار کے روز ملک بھر میں “یومِ تشکر” منایا گیا، جس میں عوام اور قیادت نے قومی خودمختاری کے دفاع پر مسلح افواج کو خراجِ تحسین پیش کیا۔