اکادمی ادبیات پاکستان میں بھارتی جارحیت کے تناظر میں امن و مزاحمت پر مذاکرہ

اکادمی ادبیات پاکستان میں بھارتی جارحیت کے تناظر میں امن و مزاحمت پر مذاکرہ

اسلام آباد، یورپ ٹوڈے: اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام بھارت کے جارحانہ اور توسیع پسندانہ عزائم کے تناظر میں ایک مذاکرہ بعنوان “امن کے فروغ میں اہل قلم کا کردار” منعقد ہوا۔ گفتگو کے ساتھ شعرا نے اپنا کلام بھی پیش کیا۔ مذاکرے کی صدارت پروفیسر جلیل عالی نے کی۔ افتتاحی کلمات صدر نشیں اکادمی ڈاکٹر نجیبہ عارف نے ادا کیے۔ نظامت جناب محبوب ظفر نے کی۔

صدر نشین اکادمی ڈاکٹر نجیبہ عارف نے کہا کہ اکادمی ادبیات ادیبوں کا نمائندہ ادارہ ہے۔ ہم سب ادیب امن، محبت اور بھائی چارے کی بات کرتے ہیں اور ایک ایسے خطّہ خواب کی تمنا کرتے ہیں جہاں امن اور محبت كی فضا ہو۔لیکن بعض قوموں کی ترجیحات کچھ اور ہوتی ہیں۔ہم کسی بھی صورت جنگ نہیں چاہتے لیکن جب جنگ ہم پر مسلط کی جائے تو اپنی زندگی، خود مختاری اور ناموس کی حفاظت کرنا خوب جانتے ہیں اور اپنی شخصی اور قومی آزادی کی حفاظت کے لیے اپنے اداروں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ حالیہ جنگ میں دنیا نے دیکھا ہے کہ پوری قوم، اپنے اختلافات بھلا کر یک جان ہو گئی اور قومی یک جہتی کی مثال قائم کر دی۔ انھوں نے کہا کہ ہماری امن کی خواہش کو کمزوری نہیں سمجھنا چاہیے۔ڈاکٹر نجیبہ عارف نے صاحب صدارت پروفیسر جلیل عالی، تمام مقررین اور حاضرین کی آمد پر ان کا شکریہ ادا کیا۔

پروفیسر جلیل عالی نے خطبۂ صدارت میں کہا کہ شاعر تو امن کا خواب دیکھتا ہے۔ ہم شاعر ادیب تو امن اور محبت کے داعی ہیں۔ لیکن جب کچھ طاقتیں امن کو کمزوری سمجھیں تو ہم آہنی دیوار ثابت ہوں گے۔ اس دنیا میں ہم دیکھتے آئے ہیں کہ عالمی اجتماع کے فیصلے کو ویٹو کے ذریعے رد کردیا جاتا ہے۔امن کے نعروں کے پیچھے طاقت کا مظاہرہ نظر آتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پوری دنیا اسلحہ ساز اور بڑی تجارتی کمپنیوں کی ملی بھگت کی سزا بھگت رہی ہے۔ شاعر اور ادیب کے پاس تو صرف چیخ ہوتی ہے، ہم تو نظم کی صورت میں چیختے رہتے ہیں لیکن دنیا کے حالات اور فیصلہ سازوں كے فیصلوں پر نظم اثر انداز نہیں ہوتی۔ وہ صرف طاقت كی زبان سمجھتے ہیں۔ پروفیسر جلیل عالی نے کہا کہ پاکستان میرے آدرش کا ایک قلعہ ہے اور اس کو ہر صورت محفوظ رہنا ہے ۔ جناب محمد حمید شاہد نے کہا کہ جنگ میں بھی امن کا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔جنگ تو اپنے ساتھ تباہی لیکر آتی ہے۔ آج کل کی جنگیں جدید ٹیکنالوجی کے دم سے لڑی جاتی ہیں۔

لہذا اس کے لیے بھی ہمیں تیار رہنا چاہیے۔ جن جنگ مسلط كی جاءے تو اس كا جواب جنگ سے ہی دیا جا سكتا ہے۔ ڈاکٹر وحید احمد نے کہا كہ برصغیر تو صوفیا کی دھرتی ہے، نہ صرف مسلم صوفیا بلكہ مہاتما بدھ اور مہابیر بھی امن کے داعی تھے ان کی تعلیمات پر عمل کی ضرورت ہے ۔لیكن ہم دوستوں كے دوست اور دشمنوں كے دشمن ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان پوری دنیا میں ہر لحاظ سے منفرد ہے ہمیں کسی اور سے تعلیمات لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم یہ واضح كرنا چاہتے ہیں كہ ہماری طرف جس طرح كا پیغام آئے گا اس كا جواب بھی ویسا ہی ہو گا۔ تیر آئے تو ہم دیوار آہن ہیں اور پھول آئے تو ہم سراپا محبت ہیں۔ انھوں نے ہندوستان کے ایک شاعر کے الفاظ کی مذمت کی اور انھیں پیغام دیا کہ وہ اپنے والد اور اپنے سسر کا کلام پڑھیں تاکہ انھیں حقیقت معلوم ہو۔ جناب اختر عثمان نے بھی ہندوستانی فلمی شاعر کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ انھیں پاکستان کے بارے میں ایسے الفاظ کہنا زیب نہیں دیتا۔ وہ جب پاکستان آتے ہیں، ہم انھیں سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں مگر انھوں نے ہماری طرف سے ملنے والی عزت و محبت کو ہماری کمزوری سمجھا۔

محترمہ زینت زیاد نے کہا کہ ملک بہتر معیشت سے مضبوط ہوتے ہیں بھارت اور پاکستان کو جنگوں پر نہیں بلکہ مضبوط معیشت پر توجہ دینی چاہیے۔ کرنل شرافت علی نے کہا کہ بھارت پر کوئی بھروسہ نہیں؛ وہ کسی نئی حکمت عملی کے تحت دوبارہ پاکستان سے جنگ چھیڑ سکتا ہے۔ محترمہ مو منہ وحید نے کہا کہ بھارت اور پاکستان دونوں کی طرف سے امن کے پیغام دینےچاہییں اور دونوں ملکوں کے ادیبوں کو امن کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے۔ گفتگو میں محترمہ فرحین چویدری، محترمہ فاطمہ عثمان اور جناب طیب اللہ خان نے بھی حصہ لیا۔ تمام مقررین نے بھارت کے جارحانہ عزائم کی بھر پور انداز میں مزمت کی اور قومی یک جہتی کی ضرورت پر زور دیا۔ محفل میں موجود شعرا کرام نے مزاحمت، امن،محبت اور قومی یک جہتی کے حوالے سے اپنا کلام بھی پیش کیا۔ ان میں، پروفیسر جلیل عالی،ڈاکٹر وحید احمد،جناب اختر عثمان، جناب امداد آکاش،جناب حسن عباس رضا،جناب خرم خلیق، محترمہ فرحین چوہدری، محترمہ نرجس جہاں زیب، محترمہ فاطمہ عثمان، جناب اقبال حسین افکار ، جناب سردار یوسف زئی، محترمہ سارا خان و دیگر شامل تھے۔ مذاکرے میں راولپنڈی اسلام آباد کے اہل قلم نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

ووہان میں عالمی ڈیجیٹل تعلیم کانفرنس 2025 کا آغاز، چین کا تعلیم کے شعبے میں ڈیجیٹل انقلاب پر زور Previous post ووہان میں عالمی ڈیجیٹل تعلیم کانفرنس 2025 کا آغاز، چین کا تعلیم کے شعبے میں ڈیجیٹل انقلاب پر زور
صدر مسعود پزشکیان کا امن و ہمسائیگی پر زور Next post صدر مسعود پزشکیان کا امن و ہمسائیگی پر زور