
وزیراعظم شہباز شریف کی بھارت کی آبی جارحیت پر شدید مذمت، بھرپور قومی ردعمل کی وارننگ
اسلام آباد، یورپ ٹوڈے: وزیراعظم محمد شہباز شریف نے جمعرات کے روز بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے (Indus Waters Treaty) کی یکطرفہ معطلی کو “کھلی خلاف ورزی اور آبی جارحیت” قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پاکستان قومی سلامتی کمیٹی (NSC) کے 24 اپریل کو ہونے والے اجلاس کے فیصلوں کی روشنی میں بھرپور اور موثر ردعمل دے گا۔
وزیراعظم ہاؤس میں پانی کے وسائل سے متعلق ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ جس طرح پاکستان نے حالیہ جنگ میں فتح حاصل کی، اسی جذبے اور عزم کے ساتھ وہ پانی کے محاذ پر بھی کامیابی حاصل کرے گا۔
اجلاس میں ڈپٹی وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار، چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر، وفاقی وزراء، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر، وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان اور اعلیٰ سول و عسکری حکام نے شرکت کی۔
وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا، “یہ انصاف کی جنگ ہے، اور جیسے ہم نے ہر جنگ اتحاد و یکجہتی سے جیتی ہے، ویسے ہی بھارت کی آبی جارحیت کو حکمت و عزم سے شکست دیں گے۔”
انہوں نے زور دیا کہ زندہ قومیں چیلنجز کا سامنا کرتی ہیں اور مستقبل کی نسلوں کے تحفظ کے لیے جراتمندانہ اور دیرپا فیصلے کرتی ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ بھارت کی جانب سے پانی کو ہتھیار بنانے کی دھمکیاں اور سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی کوششیں ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ معاہدہ ایک بین الاقوامی، قانونی و اخلاقی دستاویز ہے، جس سے یکطرفہ انخلا ممکن نہیں۔ بھارت کے دعوے سیاسی اور قانونی طور پر بے بنیاد ہیں۔
چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی قیادت نے بھارت کی دھمکیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے مؤقف کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔ وزیراعظم نے اس قومی یکجہتی کو “پاکستان کے آبی تحفظ کے لیے ہماری اجتماعی عزم کی مظہر” قرار دیا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے پانی ذخیرہ کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہوئے ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار کی سربراہی میں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی کے قیام کا حکم دیا جو نئے ڈیم منصوبوں کے لیے مالیاتی حکمت عملی تیار کرے گی۔ اس کمیٹی میں تمام صوبائی وزرائے اعلیٰ، وزیراعظم آزاد کشمیر اور متعلقہ وفاقی وزراء شامل ہوں گے اور اسے 72 گھنٹوں کے اندر اپنی سفارشات پیش کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا، “ہم غیر متنازعہ آبی ذخائر کی تعمیر کو ترجیح دیں گے۔ جہاں اتفاق رائے ہو، وہاں تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ منصوبے سیاسی نہیں، قومی ضرورت ہیں۔”
اجلاس کے دوران پاکستان کے آبی ڈھانچے پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ حکام نے آگاہ کیا کہ دیامر-بھاشا ڈیم کی تعمیر جاری ہے اور 2032 تک مکمل ہونے کی توقع ہے، جب کہ مہمند ڈیم 2027 تک مکمل ہو جائے گا۔ اس وقت پاکستان میں 11 بڑے ڈیم موجود ہیں جن کی مجموعی گنجائش 15.318 ملین ایکڑ فٹ ہے۔ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (PSDP) کے تحت 32 چھوٹے و بڑے ڈیموں پر کام جاری ہے، جب کہ سالانہ ترقیاتی پروگراموں کے تحت 79 منصوبے مکمل کیے جا رہے ہیں۔
وزیراعظم نے تربیلا اور منگلا جیسے موجودہ آبی ذخائر میں مٹی بھرنے کے سنگین مسئلے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ اگر اب فیصلے نہ کیے گئے تو تاریخ آج کی قیادت کو معاف نہیں کرے گی۔
انہوں نے کہا، “یہ 24 کروڑ عوام کا حق ہے کہ ہم ان کے لیے فیصلہ کن اقدامات کریں۔ یہ سیاست کا نہیں، بقا کا مسئلہ ہے۔ ہمیں آئندہ نسلوں کے سامنے سرخرو ہونا ہے۔”
وزیراعظم نے عالمی مالیاتی اداروں سے قرضوں کے حصول پر وزیر خزانہ، وزیر اقتصادی امور اور متعلقہ سیکریٹریز کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا، “بھارت نے ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB) میں ہمارے منصوبوں کو تین روز تک سبوتاژ کرنے کی کوشش کی، مگر ناکام رہا۔ یہ ہماری سفارتی فتح اور اصولی مؤقف کی کامیابی ہے۔”
اجلاس کے اختتام پر وزیراعظم شہباز شریف نے قومی، صوبائی اور عسکری قیادت کی مشترکہ قوت پر مکمل یقین کا اعادہ کرتے ہوئے کہا، “جیسے ہماری افواج نے میدان جنگ میں استقامت کا مظاہرہ کیا، ویسے ہی ہمیں اپنے عوام کے ہر قطرہ پانی کے تحفظ کے لیے متحد ہو کر کام کرنا ہوگا۔”
اجلاس میں ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار، آرمی چیف جنرل عاصم منیر، وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ، وزیر توانائی اویس لغاری، وزیر آبی وسائل منیب وٹو، اور دیگر وفاقی وزراء کے ساتھ ساتھ پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز، سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ، خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور، بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی، آزاد کشمیر کے وزیراعظم انوارالحق، اور گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ گلبر خان بھی شریک ہوئے۔