
کیس لاہور میں اعلیٰ سطحی سیمینار: جدید جنگ میں عسکری ہم آہنگی اور پاکستان کے دفاعی انداز کی تبدیلی پر گفتگو
لاہور، یورپ ٹوڈے: سینٹر فار ایرو اسپیس اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (کیس)، لاہور کے زیرِ اہتمام ایک اعلیٰ سطحی قومی سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس کا عنوان تھا: “جدید جنگی ماحول میں عسکری اشتراکِ عمل: پاکستان کے دفاعی مؤقف کی تشکیل نو”۔ اس تقریب میں ماہرینِ تعلیم، طلبہ، دانشوروں اور متعلقہ شعبہ جات کے ماہرین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ کیس ایک خودمختار تھنک ٹینک ہے جو قومی سلامتی کے وسیع تر تناظر میں علمی و پالیسی مباحث کے فروغ کے لیے باقاعدگی سے ایسی تقریبات کا انعقاد کرتا رہتا ہے
سیمینار کا آغاز سینئر ریسرچ ایسوسی ایٹ، امیر عبداللہ خان نے کیا۔ اُنہوں نے اس امر پر زور دیا کہ عسکری اشتراکِ عمل اب کوئی اختیاری عمل نہیں بلکہ ایک تزویراتی مجبوری بن چکا ہے۔ کلیدی خطاب ایئر مارشل (ر) عبدالمجید خان نے پیش کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ فضائی طاقت نے مشترکہ عسکری کارروائیوں کے تصور کو بنیادی طور پر بدل کر رکھ دیا ہے۔ اُنہوں نے واضح کیا کہ فضائی برتری نہ صرف انٹیلی جنس، نگرانی اور ہدف بندی ، بلکہ الیکٹرانک وارفیئر اور حقیقی وقت میں کمانڈ و کنٹرول کے لیے بھی ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے۔ اُنہوں نے یہ نکتہ اٹھایا کہ جدید اشتراکِ عمل کو مشترکہ عسکری نظریے، مربوط تربیتی نظام، اور حقیقی وقت پر مبنی جنگی فہم و ادراک کی بنیاد پر استوار کیا جانا چاہیے۔ فضائی دفاعی نظام کے ممکنہ کمزور پہلوؤں کی نشان دہی کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ دفاعی ڈھانچے کو اس حد تک مستحکم بنایا جائے کہ وہ ناقابلِ تسخیر بن جائے۔ ایئر مارشل صاحب نے آپریشن بنیان المرصوص کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی تیز، متوازن اور مربوط سہ فریقی عسکری کارروائی نے بھارت کے جنگی منصوبوں کو مؤثر انداز میں متاثر کیا اور حقیقی وقت میں ملٹی ڈومین ہم آہنگی کی افادیت کو ثابت کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ آئندہ کی جنگوں میں کامیابی کا دار و مدار اُس سہ فریقی آپریشنل سائیکل پر ہو گا جس میں مشترکہ جنگی منصوبہ بندی، منظرناموں پر مبنی وار گیمنگ، اور ہمہ گیر قومی مشقیں شامل ہوں گی۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) عامر ریاض نے اپنی گفتگو میں روایتی اور غیر روایتی دونوں طرز کی جنگوں میں عسکری اشتراکِ عمل پر گہری بصیرت پیش کی۔ اُنہوں نے کہا کہ چونکہ جنگ کی نوعیت بدل چکی ہے، اس لیے بھارت پاکستان کے خلاف براہِ راست اور بالواسطہ دونوں طریقوں سے ایک مسلسل جنگ میں مصروفِ عمل ہے۔ آپریشن بنیان المرصوص کی کامیابی کو سراہتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ آئندہ کی جنگوں میں کامیابی کے لیے عسکری اشتراکِ عمل کو ایک ادارہ جاتی کمانڈ نظام کے تحت مستقل بنیادوں پر اپنانا ہو گا۔ ریئر ایڈمرل (ر) سید فیصل علی شاہ نے بحری تناظر پیش کرتے ہوئے کہا کہ انڈو پیسفک خطے میں طاقت کا توازن تبدیل ہو رہا ہے اور بھارت کی بحری برتری کے عزائم سے نمٹنے کے لیے ایک ایسا بحری نیٹ ورک درکار ہے جو نہ صرف قابلِ اشتراک ہو بلکہ فوری ردِعمل کے قابل بھی ہو۔
اختتامی کلمات میں ایئر مارشل (ر) عاصم سلیمان، صدر کَیس لاہور نے کہا کہ پاکستان کا دفاعی مؤقف اب روایتی پلیٹ فارم پر مرکوز جنگی طرزِ عمل سے نکل کر نیٹ ورک پر مبنی جنگی تیاری کی طرف بڑھ رہا ہے، جو تمام شعبہ ہائے جنگ میں مشترکہ تیاری کو ممکن بناتا ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ معرکۂ حق کے دوران پاک فضائیہ نے صرف ایک گھنٹے کے اندر سات بھارتی طیارے—جن میں تین رافیل اور ایک ہیروئن یو اے وی شامل تھے—مار گرائے۔ یہ جدید تاریخ کی سب سے بڑی ماورائے حد نگاہ فضائی جھڑپ تھی، جس میں پاک فضائیہ نے ملک میں تیار کردہ جدید ٹیکنالوجی، سائبر، الیکٹرانک وارفیئر، خلائی اثاثے اور ڈرونز کو مؤثر طریقے سے استعمال کیا—یہ سب ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو کے “ہائی ٹیک ملٹی ڈومین آپریشنز” کے وژن کا عملی مظہر تھے۔ آپریشن بنیان المرصوص کا ذکر کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ اس نے بھارتی عزائم کو پست کر کے دہلی کو امریکہ سے مدد طلب کرنے پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس آپریشن نے مسئلہ کشمیر کو دوبارہ عالمی ایجنڈے پر زندہ کیا۔ اُنہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان فضائیہ نے زمینی فوج کی میزائل اور آرٹلری قوت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر دشمن کے ۳۴ اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا، جن میں ۱۴ ہوائی اڈے، دو ایس-۴۰۰ بیٹریاں، دو براہموس میزائل ذخائر اور دیگر تذویراتی اثاثے شامل تھے۔ انہوں نے زور دیا کہ مستقبل کی جنگوں کے تناظر میں لازم ہے کہ تمام عسکری خدمات جنگی میدان کو ایک ہی انداز میں دیکھیں، ایک ہی عملی زبان بولیں، اور یکجہتی کے ساتھ کارروائی کریں تاکہ مشترکہ عسکری قوت مؤثر انداز میں بروئے کار آ سکے۔
سیمینار کا اختتام ایک متحرک سوال و جواب کے سیشن پر ہوا جس میں شرکاء نے مشترکہ فورس ڈیزائن اور مستقبل کے خطرات سے نمٹنے کی تیاری پر گہرے خیالات کا تبادلہ کیا۔