
باقی صدیقی۔۔ ایک ہمہ جہت شخصیت

باقی صدیقی کا اصل نام محمد افضل قریشی تھا۔ آپ 20 دسمبر 1908ء کو راولپنڈی میں جرنیلی سڑک پر واقع اپنے آباء کے گاؤں سہام میں پیداہوئے۔ وہ اپنے گاؤں کے پہلے میڑیکیولیٹ تھے۔ اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں مدرسی سے لے کر نگارخانی بھی کی دفتری ملازمتیں بھی کیں لیکن آخرکار اپنے من پسند شعبے شعر و ادب سے ایسے منسلک ہوئے کہ دم آخر اسی سے وابستہ رہے۔ جس طرح ا نسان کے نام کا اثر اس کی شخصیت پر بھی ہوتا ہے اسی طرح باقی صدیقی اپنے اصل نام افضل کی طرح اپنے ہم عصروں میں اپنی شخصیت کے حوالے سے بھی افضل تھے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے کردار و افعال میں بھی افضل تھے۔اسی طرح شاعری میں بھی شاعر کا تخلص اس کی شاعری کا آئینہ دار ہوتاہے۔
اس کے پس منظر میں محترم جمیل یوسف اس طرح اظہارخیال کرتے ہیں کہ: ”باقی صدیقی اردو غزل کے دلپذیر شیوہ گفتار اور اس صنف سخن کی سحر انگیز خوبی اظہار کی باقیات میں سے تھے۔ ان کے طرزکلام کے اس پہلو کی کچھ مناسبت ان کے تخلص سے ضرور تھی“۔ اپنی شاعری کی ابتدا انہوں نے ”افضل سہامی“ کے قلمی نام سے پنجابی پوٹھوہاری بیتوں سے کی ا ور مختلف ادوار میں خاور، ناوک اور فانی کے قلمی ناموں کو بھی برتا آخرکار بہت سوچ بچار اور دل و دماغ کے اطمینان کے بعد ”باقی“ اختیار کیا۔چونکہ ان کی اٹھان خالص مذہبی ماحول میں ہوئی تھی اور نیک والدین کے فیضان ِ نظر سے ان کے قلب و ذہن پاکیزگی اور نیک اطوار سے مزین تھے اس لیے اس لفظ سے بھی انہیں یہ شک گزرا کہ کہیں یہ شرک کے زمرے میں نہ آتا ہو۔
انہوں نے اپنی غزلیں جناب احمد ندیم قاسمی کو اس تحریر کے ساتھ بھیجیں کہ میں نے اپنا تخلص بھی بدل لیا ہے اور فانی رکھ لیا ہے کیونکہ باقی تو صرف خداوند تعالیٰ کی ذات بابرکات ہی ہے۔ جناب احمد ندیم قاسمی کہتے تھے کہ میں ان کے اس استدلال سے دم بخود رہ گیا جواباً خط میں لکھا کہ، ”خدا کے اسماء میں ایک اسم غالب بھی ہے تو کیا غالب نے خدا سے ڈر کر مجبور یا محکوم تخلص کر لیا تھا؟ جولوگ عبدالقادر کو قادر صاحب کہتے ہیں یا عبدالقیوم کو قیوم صاحب کہتے ہیں توکیا یہ خدائی دعوے کے گنہگار ہیں۔ میں نے عاجزی سے انہیں سمجھایا کہ آپ باقی ہی رہیے جبکہ فانی کے تخلص کو فانی بدایونی غیرفانی کر گئے ہیں۔ باقی صاحب نے ان کے مشورے پر باقی کے تخلص کو ہی برقرار رکھا اور شاید اسی نام کا اثر ہے کہ آج ترپن سال گزرنے کے باوجود ان کا نام اسی طرح تابندہ وفروزاں ہے۔ وہ ذاتی طور پر موجود تو نہیں لیکن ان کے لکھے اور کہے ہوئے الفاظ ان کے ہونے کی گواہی دے رہے ہیں۔ بقول جناب جمیل یوسف، ”یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ بعض شعراء کے تخلص میں ان کی شاعری کی قدر و قیمت کا پرتو موجود ہوتا ہے۔
میرتقی میر کو سب اردو شاعری کا میرکارواں تسلیم کرتے ہیں۔ غالب کا غلبہ آج تک اردو شعروسخن کی سلطنت پر قائم ہے اور دنیا میں اقبال کا اقبال بلند ہورہا ہے اسی طرح باقی صدیقی کا تخلص اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان کا نام اور کام باقی رہے گا اور ان کے کلام کی عظمت کو بھی بقائے دوام حاصل ہوگا۔ جوں جوں اہل ذوق اسے پڑھیں گے اور اہل نظر اس کاجائزہ لیں گے ان کے فن کی سچائی ان پر منکشف ہوتی چلی جائے گی“۔ چونکہ زیادہ لوگ شاعر اور ادباء حضرات کو ان کے قلمی ناموں سے جانتے ہیں اس لیے باقی صدیقی کے اس قلمی نام کو اختیار کرنے سے بعض لوگوں کو یہ شائبہ ہوا کہ وہ خاندانی لحاظ سے صدیقی قریشی ہیں لیکن وہ سہام کے قریشی ہاشمی خاندان کے چشم وچراغ ہیں اور ان کا سلسلہ نسب حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ملتا ہے اور صدیقی کا لاحقہ انہوں نے خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قلبی نسبت کی وجہ سے اختیار کیا تھا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے خونی نسبت رکھنے والے برصغیر پاک و ہند کے اس بے مثال اور باوقار شاعر باقی صدیقی کو شہرت اسی قلمی نام سے ہی ملی۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ راولپنڈی کے بیابان و اجاڑ دیہات سہام میں پیدا ہونے والے اس انسان کی شہرت یہاں سے ہوتی ہوئی بمبئی کے نگارخانوں میں بھی پہنچ جائے گی اور لوگ ان کی بڑی بڑی تصاویر نگارخانوں کے باہر آویزاں دیکھیں گے۔ زندگی کے مختلف نشیب و فراز سے گزرنے کے بعد شعر و ادب کی طرف راغب ہوکر امر ہوگئے۔ باقی صدیقی کی عظمت کا اندازہ لگانے کے لیے تحریک پاکستان کے نامور کارکن، محقق اور ممتاز شاعر ادیب جناب جمیل الدین عالی یہ شعر ہی کافی ہے کہ:
؎ باقی ؔ! جس کی غزلیں اس کے نام کے روپ دکھائیں!!! ہائے رے پنڈی والو! اس سے کیا کیا بوجھ اٹھوائیں!!!
جناب باقی صدیقی کے سات مجموعہ ہائے کلام اور ان کی کلیات بھی منظرعام پر آچکی ہے۔ باقی صدیقی میں مذہبی رنگ کے ساتھ ساتھ وطن سے محبت بھی بہت شدت سے جاگزیں تھی، اسی جذبے کے تحت انہوں نے اپنی شاعری میں اپنے وطن کو خراج تحسین بھی پیش کیا۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کے دوران ان کے لکھے ہوئے گیت اور ملی نغمے ریڈیو پاکستان راولپنڈی سے نشر ہوتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ کشمیر کی تحریک آزای سے بھی ان کی دلی وابستگی تھی۔ وطن سے محبت اس طور پر ان میں جاگزیں تھی کہ جس دن مشرقی پاکستان کا سقوط ہوا اس دن دفتر کے صحن میں ایک طرف درخت کے ساتھ انہیں کھڑے زار و قطار روتے دیکھا گیا، پوچھا گیا کہ کیا ہوا، کہنے لگے مشرقی پاکستان نے وہ دکھ دیا ہے کہ اب کوئی غیرت مند جی ہی نہیں سکتا۔ وطن عزیز کے دولخت ہونے کے اس دلخراش سانحے کے بعد ان کی طبیعت نہیں سنبھلی اور بائیس دن بعد وہ اپنے وطن کی محبت والفت کو سینے سے لگائے 8 جنوری 1972ء کو منوں مٹی کے نیچے اتر گئے اور اپنی ذات اپنی محبت اپنے عزیز ازجاں وطن پر نچھاورکردی!!
؎ بہاربزم میں تحلیل ہو گیا ہوں میں!!!
کہاں ہیں بزم سے مجھ کو نکالنے والے!!!