جیا قریشی کی دو غزلوں پر تبصرہ

جیا قریشی کی دو غزلوں پر تبصرہ

پہلی غزل

گناہگار ہوں شوقِ ثواب میں چپ ہوں         وہی بلاۓ گا جس کی جناب میں چپ ہوں

اداس ہو گٸے مجھ پر چنگھاڑنے والے           تمام نقد و نظر کے جواب میں چپ ہوں

نہیں کسی کو ضرورت کہ حال ِ دل سمجھے               خوشی خوشی ہوں کہ یارو ! عذاب میں چپ ہوں

تمام شہر مری کیفیت سمجھتا ہے                      عجیب بات کسی کے حساب میں چپ ہوں

کوئی بھی کہتا نہیں مجھ سے بولنے کے لیے              میں جاگتے میں جیا ہوں کہ خواب میں چپ ہوں

تبصرہ:

 غزل کا موضوع اور فضا:

یہ غزل ایک خاموشی اور صبر کی حالت کی ترجمانی کرتی ہے۔ شاعرہ نے ایک منفرد انداز میں یہ دکھایا ہے کہ کس طرح اندرونی کشمکش اور سماجی دباؤ کے باوجود شاعر خاموش رہنا بہتر سمجھتی ہے۔”چپ ہوں” کی تکرار اس غزل کا مرکزی محور ہے، جو جذبات کی شدت کے باوجود خاموشی کو بیان کرتی ہے۔ ایک طرح سے یہ خود کو دنیا کی رائے سے الگ کرنے کا اعلان ہے، جو وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اپنی حفاظت کا طریقہ ہے۔

ادبی عناصر:

۱-تکرار کا استعمال: “چپ ہوں” کی تکرار نہ صرف شعر کو موسیقیت دیتی ہے بلکہ اس کے پیچھے چھپی کیفیت کو بھی بہت خوبصورتی سے نمایاں کرتی ہے۔

۲-تضاد: “گناہگار ہوں شوقِ ثواب میں”، یہ لائن گناہ اور ثواب کی کشمکش کو ظاہر کرتی ہے، جو انسان کے اندرونی تضادات کی علامت ہے۔

۳-تمثیل: “تمام شہر مری کیفیت سمجھتا ہے”، جہاں شاعرہ نے اپنے دل کی حالت کو شہر کی نظر میں واضح کر دیا ہے۔

۴-خیال کی گہرائی: “خوشی خوشی ہوں کہ یارو! عذاب میں چپ ہوں”، یہاں خوشی اور عذاب کا ساتھ ساتھ چلنا ایک بہت ہی سنجیدہ اور فلسفیانہ خیال ہے۔

بحر اور اسلوب:

غزل میں سادہ اور عام فہم زبان کا استعمال ہے، جس کی وجہ سے یہ عام قاری کے دل کو جلد چھو جاتی ہے۔ مگر اس کے باوجود الفاظ میں ایک مخفی درد اور فلسفہ چھپا ہوا ہے۔یہ غزل زیادہ تر بحرِ رمل یا بحرِ ہزج پر مبنی لگتی ہے، جو نرم و نازک جذبات کی ترجمانی کے لیے موزوں ہے۔

 تنقیدی نظر:

شاعری میں جو خاموشی کا فلسفہ بیان ہوا ہے، وہ آج کے دور میں خاص طور پر اہم ہے جہاں لوگ جذبات کا شور مچاتے ہیں۔ شاعرہ نے اس شور میں خاموش رہنے کی طاقت کو بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔”کوئی بھی کہتا نہیں مجھ سے بولنے کے لیے”، یہ لائن تنہائی اور الگ تھلگ ہونے کا احساس دلاتی ہے، جو آج کے معاشرتی تناظر میں ایک دردناک حقیقت ہے۔

جیا قریشی کی یہ غزل ایک خاموش مگر گہرا پیغام دیتی ہے۔”خاموشی بھی ایک جواب ہے، اور کبھی کبھی خاموشی ہی سب کچھ کہہ دیتی ہے۔”یہ غزل ذرا سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کرتی ہے، اور اس کی سادگی میں ایک گہری حکمت چھپی ہے۔

 دوسری غزل

بات جب بن نہیں پاٸی کسی اچھائی میں            لوگ اب نام کمانے لگے رسوائی میں

دشت میں پھول کھلانے میں رہی ہوں مشغول      رنگ ِ اخلاص بہت ڈھونڈا ہے ہرجائی میں

جس کی خاطر یہ مہکتے ہوۓ اشعار کہے         وہ لگا رہتا ہے اپنی ہی پزیرائی میں

آگے دریا بھی کہیں بہتا ہے اس آس پہ میں          چلتی رہتی ہوں کسی دشت کی پہنائی میں

اب وہ خود سے بھی بہت دور نکل آیا جیا           پیش رفت ایسی ہوئی ہے مری پسپائی میں

جیا قریشی کی شاعری میں ایک گہرا احساس اور معاشرتی شعور نمایاں  ہے۔

غزل کا موضوع اور فضا:

یہ غزل بھی جیا قریشی کے وہی گہرے مشاہدات اور انسانی جذبوں کی پیچیدگیوں کی عکاسی کرتی ہے، مگر اس بار معاشرتی ناہمواری، قربانی اور تنہائی کے پہلو پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔شاعرہ نے دکھایا ہے کہ کیسے خلوص اور محنت کے باوجود انسان کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور کس طرح ذات کے حصول کی خواہش میں لوگ اپنے اصول کھو دیتے ہیں۔

 ادبی عناصر:

۱-تضاد اور تنقید:

؏              “لوگ اب نام کمانے لگے رسوائی میں”

یہ مصرع معاصر معاشرے کی تلخ حقیقت کو سامنے لاتی ہے جہاں شہرت اور کامیابی کے لیے لوگ بدنامی کا سہارا لیتے ہیں۔

۲-تمثیل:

؏                      “دشت میں پھول کھلانے میں رہی ہوں مشغول”

یہاں شاعرہ نے اپنی محنت اور خلوص کو پھول کھلانے سے تشبیہ دی ہے، جو بلاشبہ شاعری میں جمالیاتی حسن پیدا کرتی ہے۔

۳-خود اعتمادی کی کمی:

؏              “اب وہ خود سے بھی بہت دور نکل آیا جیا”

یہاں خود کی پسپائی اور فاصلے کا ذکر ہے، جو ذاتی جدوجہد اور داخلی کشمکش کو ظاہر کرتا ہے۔

بحر اور اسلوب:

دوسری غزل بھی نرمی اور فلسفیانہ تاثرات کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔ زبان واضح اور پُراثر ہے، جس سے عام قاری فوراً جڑ جاتا ہے۔ یہ غزل بھی غالباً بحر رمل یا بحر ہزج پر مبنی ہے، جو اس طرح کے جذبات کی ترجمانی کے لیے مثالی ہوتے ہیں۔

 تنقیدی نظر:

شاعرہ نے اپنی غزل میں معاشرتی رویوں اور ذاتی احساسات کو بہت خوبصورتی سے پرویا ہے۔

؏              “رنگِ اخلاص بہت ڈھونڈا ہے ہرجائی میں”

یہ مصرع خاصا منفرد اور فکری ہے، جو ہمیں انسانی رشتوں کی ناپائیداری کی یاد دلاتی ہے۔غزل کا اختتام خاصا معروضی اور حقیقت پسندانہ ہے، جو شاعرہ کی بصیرت کو ظاہر کرتا ہے۔

جیا قریشی کی یہ غزل بھی ایک پُر اثر فکری اور جذباتی تصویر پیش کرتی ہے، جو پڑھنے والے کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ خلوص، قربانی، اور سچائی کی راہ میں مشکلات کا سامنا لازمی ہے، مگر یہ وہی راہ ہے جو انسان کو اندر سے مضبوط بناتی ہے۔

وزیرِاعظم شہباز شریف کا ایران اسرائیل کشیدگی پر عالمی برادری سے فوری جنگ بندی کا مطالبہ Previous post وزیرِاعظم شہباز شریف کا ایران اسرائیل کشیدگی پر عالمی برادری سے فوری جنگ بندی کا مطالبہ
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے ملاقات، پاکستان کی اسٹریٹجک اہمیت کا اعتراف Next post صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے ملاقات، پاکستان کی اسٹریٹجک اہمیت کا اعتراف